Posts

Showing posts with the label Sindh

ديوارِ سنڌ رني ڪوٽ – ایوا زوبیڪ

Image
ديوارِ سنڌ رني ڪوٽ –    ایوا زوبیڪ نامیاري پولش سیاح ڇوڪري ۽ وڊیو بلاگر ایوا زوبیڪ بہ نیٺ ديوارِ سنڌ رني ڪوٽ پھچي وئي ۽ رني ڪوٽ ڏسندي ئي مٿس موهت ٿي پئي. ايوا زوبيڪ رني ڪوٽ جي مختصر وڊیو ۾   ڇا تہ منظر نگاري ڪئي آھي، جيڪا ڏسڻ وٽان آهي. اوهان هڪ دفعو هن مختصر ويڊیو کي ضرور ڏسندا . ·       رني ڪوٽ قلعو سنڌ جي عظيم ديوار (ڀِت) جي حيثيت سان مشهور آهي. ·       دنيا جي سڀ کان وڏو قلعو جي نالي سان سڃاتو وڃي ٿو. ·       رني ڪوٽ قلعو تقريبن 32 ڪلوميٽر تي مشتمل آھي.

ڈگری میرپورخاص سندھ پاکستان

Image
ڈگری شہر ·        ڈگری شہر یہاں کی رہائشی ایک غریب اور بہادر ملاح خاتون ’’مائی ڈگھی مير بحر‘‘ کے نام پر ہے- مائی ڈگھی (لمبے قد والی خاتون) اپنے لمبے قد کی وجہ سے مائی ڈگھی کے نام سے مشہور ہوئی ۔ ·        اس زمانے میں جنوبی سندھ میں میر خان نامی ایک ڈاکو نے دہشت پھیلائی ہوئی تھی- ·        مائی ڈِگھی نے بہادری اور دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈاکوؤں کے ایک گروہ کا خاتمہ کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ ·        انگریزوں نے جنوبی اور وسطی سندھ کے علاقوں کی غیر آباد زمینوں کو آباد کرنے کے لئے مشرقی پنجاب کے کاشتکاروں کو یہاں بسانے کا منصوبہ بنایا۔ ·        1903 میں اسے حیدرآباد سے علیحدہ کرنے کے بعد تحصیل کا درجہ دے کر تھر پارکر ضلع میں شامل کیاگیا- ·        سلطان محمود غزنوی 1026ء میں سومنات فتح کرنے کے بعد قدیم دریائے "پران" ڈگری کے کنارے سفر کرتے ہوئے واپس غزنی گئے تھے- ·        جھڈو سے کنری کے راستے پر چار ہزار سال قدیم بودھ اسٹوپا کے آثار آج بھی دیکھے جاسکتے ہیں، جنہیں مقامی افراد ’’ڈیری‘‘ کہتے ہیں- ·        محکمہ ریلوے کی نا اہلی کے باعث مصرو

مُکھی ہاؤس میوزیم حیدرآباد سندھ

Image
شاندار فنِ تعمیر کا شاہکار نمونہ ·        مُکھی ہاؤس   –   مُکھی محل –   مُکھی ہاؤس میوزیم ·        مُکھی محل جیٹھا نند مکھی بِن پرتم داس (1833ء-1927ء)نے 1920ء میں اپنی خواہش اور پسند کے عین مطابق تعمیر کروایا۔ ·        جیٹھانند مُکھی اس زمانے میں حیدرآباد کی شہری انتظامیہ کے سربراہ تھے۔ شہر کے کافی انتظامی معاملات ان کے سپرد تھے۔ ·        مکھی ہاؤس سے تھوڑے سے فاصلے پر مُکھی باغ بھی تھا مگر اب اس باغ کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے، یہاں پر اب گنجان آبادی ہے۔ ·        اس شاہکار گھر کی تعمیر کے 7 برس بعد جیٹھانند مکھی 1927ء میں اس دنیا سے چل بسے اور یہ شاندار محل نما گھر ان کی بیوہ اور دو بیٹوں کے نام ہوگیا ۔ ·        وقت اور حالات کبھی ایک جیسے نہیں رہتے، وقت کے بہتے دریا کا رُخ کبھی انسان کے حق میں تو کبھی اس کے خلاف ہوجاتا ہے۔ ·        مُکھی خاندان پاکستان بننے کے بعد بھی اسی شہر اور گھر میں مقیم رہا۔ تاہم 1957ء میں انھوں نے بھی اس محل نما گھر کو خیرباد کہہ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہندوستان میں رہائش اختیار کرلی۔ ·        کسی زمانے میں مُکھی ہاؤس میں ہندوستا

کوٹری بیراج - پورے ملک کو کراچی سے ملانے کا اہم ذریعہ اور ایک بہترین تفریح گاہ

Image
کوٹری بیراج دریاء سندھ پر تعمیر کیا ہوا ایک مشہور بیراج ہے۔ یہ بیراج حیدرآباد شہر کے شمال مغرب کی طرف، جام شورو کے قریب ہے۔ انگریز حکمران نے اسی جگہ پر بیراج تعمیر کرانے کی اسکیم 1940 ء میں بنائی تھی مگر دوسری عالمی جنگ کی وجہ سے اس پر عمل نہ ہو سکا۔ پاکستان قائم ہونے کے فوراً بعد اسی اسکیم پر کام شروع کردیا گیا۔ 12 جنوری 1950 ء میں اسی بیراج کے بنیاد کا پتھر رکھا گیا تقریباً ساڑھے پانچ سال بعد بائیں طرف سے چینلز نے بہنا شروع کیا۔ کوٹری بیراج بنانے کا اہم مقصد یہ تھا کہ اپر سندھ کی طرح لوئر سندھ میں بھی دریائی پانی میں اضافہ کی موسم میں دریاء سندھ کا پانی روک کر اس کو کارآمد استعمال کیا جائے۔ کوٹری بیراج بنانے کا تخمینہ تقریباً 21 کروڑ لگایا گیا تھا مگر قیمتیں بڑھنے سے یہ خرچ 45 کروڑ 16 لاکھ تک جا پہنچا۔ اس بیراج کی دیگر اسکیموں پر بھی کام چلتا رہا 1968-69 ء تک اس بیراج پر لاگت 52 کروڑ سے بھی تجاوز کر گئی۔ کوٹری بیراج سے مندرجہ ذیل چینل نکلتے ہیں : 1.                           کلری بگھاڑ چینل 2.                           پیجاری چینل 3.                 

کاشی کا ہنر - سندھ کا لاثانی ہنر

Image
سندھ قدیم زمانے سے علم، ہنر اور تہذیب کا مرکز رہا ہے۔ موھن جو دڑو،   کوٹڈیجی، آمری، بھنبھور، برہمن آباد اور دوسری کئی جگہوں کی کھدائی سے کئی نایاب چیزیں جس میں سونا اور چاندی کے گہنے، قیمتی پتھر، موتی، مٹی کے سادے اور نقش نگار والے برتن اور کاشی کے برتنوں کے ٹکڑے ملے ہیں، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کاشی کا کام سندھ میں قدیم زمانے سے ہو رہا تھا اس وقت یہ ہنر سندھ کے کئی شہروں میں ہو رہا ہے۔ ٹھٹہ، سیہون، بلڑی شاہ کریم، نصرپور اور ہالا کاشی کے اہم مراکز ہیں۔ کاشی کا کام گلٹ والے رنگوں کی وہ نقش نگاری ہے، جس کا عمل چاہے طریقہ کار، رنگ اور پینٹ اور مصوری کا عجیب طریقہ ہے۔ کاشی کا کام مٹی کے برتنوں پر کیا جاتا ہے جو خاص چکنی مٹی سے جوڑے جاتے ہیں۔ وہ مٹی دریا کے زیادہ بھیگے ہوئے پانی والی جگہ سے حاصل کی جاتی ہے۔ کاشیگر ایک مخصوص جگہ میں اس مٹی کو کوٹ کوٹ کر حوض میں بھگودیتا ہے جو چودہ پندرہں گھنٹے بھگوئی ہوئی ہوتی ہے۔ اس کے بعد اس کے چھوٹے پیڑے بنائے جاتے ہیں۔ اگر کاشیگر کو ان میں سے اینٹیں بنانی ہوں تو وہ سانچے کے ذریعے بنائی جاتی ہیں اور ان کو ٹھپنی سے ٹھیک کیا جاتا ہے۔ اگر

سندھ میں کوئلے کے ذخائر

Image
سندھ کی سرزمین کو جہاں قدرت نے دوسری کئی نعمتوں سے نوازا ہے وہاں یہ معدنی وسائل میں بھی مالا مال ہے۔ سندھ میں جپسم، تیل، گئس، گرینائیٹ، کوئلہ اور دوسری کئی اشیاء ملتی ہیں۔ کھیرتھر کے پہاڑوں سے کارونجھر کے خوبصورت پہاڑوں تک، کشمور سے کراچی تک، سندھ کے کچے، پکے، کوہستان اور تھر کے علاقوں میں معدنیات کے بڑے ذخائر موجود ہیں۔ تمام معدنی اشیاء میں کوئلہ بڑی اہم معدنیات ہے۔ کوئلے کے بڑے ذخائر پہاڑی کانوں اور زمین کے سینے میں دفن ہیں۔ یہ وہ اہم معدنی ذرائع ہیں جو آج کل کی تیزی سے بڑھنے والی دنیا کی آبادی کو توانائی فراہم کر سکتی ہے اور جلانے کی ضروریات کو بھی پورا کر سکتی ہے۔ سندھ میں کوئلہ اس سے پہلے ضلعہ دادو کے ”لاکھڑا“ میں اور ضلعہ ٹھٹہ کے ”سونڈا اور میٹینگ“ میں ملتا تھا، مگر حال ہی میں ضلعہ تھر میں کوئلے کے بہت بڑے ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔ انگریزوں کے دور میں پہلی بار کراچی میں 1859 ء میں اسٹیم پر چلنے والا انجن متعارف کرایا گیا تھا۔ اس سے دو سال قبل دادو کی تحصیل کوٹڑی میں ”لاکھڑا“ کے مقام پر کوئلہ ملا تھا۔ انگلینڈ میں اسی کوئلہ پر تحقیق کرنے کے بعد جب دریائے

سندھ کے میلے

Image
سندھ کی تہذیب، دنیا کی قدیم تہذیبوں میں سے ایک ہے۔ سندھی ثقافت، سندھی قوم کے رسم و رواج، کھیل کود، لباس و پوشاک، ہنر کاریگری، نظریے اور اعتقاد سندھیوں کے جمالیاتی ذوق کے آئینہ دار ہیں۔ سندھ کے میلے سندھی ثقافت کی جان ہیں۔ ” میلہ“ فعل ”ملنے“ سے لیا گیا ہے، جس کے معنی ایک ”جگہ جمع ہونے کے ہیں“۔ در اصل اسی مفہوم کا انتہائی قدیم لفظ ”میڑو“ ہے جو فعل ”میڑڑں“ سے نکلا ہے، جس کے معنی ”جمع کرنا کے ہیں“۔ اصطلاحاً میں اس کے معنی ”تفریح کیلئے ایک جگہ جمع“ ہونے کے ہیں۔ سندھ کے میلے زیادہ تر اولیاﺅں، درویشوں اور صوفی بزرگوں کی درگاہوں اور آستانوں پر چاند کی پہلی تاریخ کے بعد جو پہلا سوموار آتا ہے جس کو ”مقدس سوموار“ بھی کہتے ہیں یا جمعرات یا عرس کے موقعوں پر لگائے جاتے ہیں۔ سندھ میں بڑے میلے جو قومی سطح پر کرائے جاتے ہیں وہ ہیں قلندر لال شہباز اور شاھ عبداللطیف بھٹائی کے میلے۔ ان دونوں میلوں میں ملک کے کونے کونے سے عقیدتمند آکر حاضری دیتے ہیں۔ یہ میلے تین دن اور تین راتیں چلتے ہیں، جن کو تین دھمالیں بھی کہا جاتا ہے۔ پہلی دھمال پر میلے کی تقریبات کا افتتاح ہوتا ہے۔ کافی سا