روپلو کولہی
Rooplo Kolhi was a Sindhi Freedom Fighter
روپلو
کولہی - سندھ
کی جنگِ آزادی کا ہیرو
· کارونجھر
پہاڑ کے دامن میں’’روپلو کولہی ‘‘ کے نام سے ایک خوب صورت ریزورٹ بنایا گیا ہے۔
· 1843ء
میں انگریزوں نے حیدرآباد پر قبضہ کرکے پکا قلعہ پر اپنا جھنڈا لہرا نے کے بعد
،تمام سند ھ پر اپنا تسلط مکمل کرنے کا اعلان کر دیا تھا، لیکن سندھ پر قبضہ ہونے
کے بعد بھی انہیں صحرائے تھر میں کولہی برادری کی طرف سےسخت مزاحمت کا سامنا تھا۔
· اس
زمانے میں ہندوستان کا مشہور ڈاکو بلونت سنگھ چوہان ، نگرپارکر میں روپوشی کی زندگی
گزار رہا تھا، روپلو کی ماں کیسر بائی بھی چوہان تھیں، اس لیے بلونت انہیں اپنی
بہن سمجھتا تھا، یہی وجہ تھی کہ بلونت سنگھ نے روپلو کو فنون حرب سے آشنا کیا۔
· روپلو
نے ٹھاکروں سے کہا کہ آپ لوگوں نے معصوم بچوں کو دودھ اور لسی سے محروم کرکے قہر
برپا کردیا ہے
· جنرل
ٹائرئوائٹ وہاں سے فرار ہوکرنگر پارکر کے شمال میں گوٹھ پورن واہ کےموچی لادھو مینگھواڑ
کے گھر میں ایک بہت بڑے مٹی کے برتن میں جاکر چھپ گیا۔
· نگر
پارکر پر قبضے کے بعد کولہی یہ سمجھ رہے تھے کہ انہوں نے انگریزوں کو مکمل طور سے
علاقے سےبے دخل کر دیا ہے، لیکن حقیقت اس کے برعکس تھی۔
· روپلو
کولہی اپنے وفادار ساتھیوں کے ساتھ وہاں سے فرار ہوکر کارونجھر کی پہاڑیوں میں
روپوش ہوگیا۔
·
روپلو کولہی کی موت کے بعد اس کی لاش
غائب کردی گئی۔
تھرپارکر میں
مٹھی سے 150 کلومیٹریعنی 93میل کے فاصلے پرنگر پارکرکا قصبہ ہے، جو ہندوؤں کے
مذہبی مقامات کی وجہ سے معروف ہے۔ اس علاقے میں کئی تاریخی مقامات سمیت جین مت کا
قدیم جین مند، درگا ماتا مندر واقع ہیں ۔
ویسے تو یہ ریگستانی
علاقہ ہے، لیکن برسات کے دنوں میں اس خطےکا منظر انتہائی دل فریب ہوتا ہے۔ملک کے
دوردراز علاقوں کے علاوہ بیرونِ ممالک سے بڑی تعداد میں سیاح اور ہندو یاتری
تھرپارکر کی سیر کے لیے آتے ہیں۔ ان کے قیام کے لیے کارونجھر پہاڑ کے دامن میں’’روپلو
کولہی ‘‘ کے نام سے ایک خوب صورت ریزورٹ بنایا گیا ہے، جس کی خوب صورتی دیکھنے سے
تعلق رکھتی ہے۔ ریزورٹ 26 پُر آسائش کمروں پر مشتمل ہے جن میں بجلی ، پانی، گیس
سمیت زندگی کی تمام سہولتیں مہیا کی گئی ہیں۔ تھرپارکر کی سیر کے لیے آنے والے
ہزاروں افراد یہاں قیام کرتے ہیں، لیکن مقامی افراد کے علاوہ بہت ہی کم افراد ایسے
ہیں، جو اس ریزورٹ کے نام سے موسوم شخصیت و تاریخِ سندھ کے اہم کردار ’’روپا جی
گوہل‘‘ المعروف روپلو کولہی کے بارے میں جانتے ہیں۔ روپلو کولہی تحریکِ آزادی
سندھ کے عظیم مجاہد تھے، جنہیں اسی مقام پر، (جہاں ریزورٹ ہے)، تختہ دار پر چڑھایا
گیا تھا ۔
انگریزوں نے پورے
برصغیر کو اپنا زیر نگین بنانے کے لیےمختلف علاقوں میں فوج کشی کی۔ 1840ء میں
انہوں نے سندھ اور پنجاب کا رخ کیا۔ سندھ میں چارلس نیپئر کی فوجوں اور سندھ کے
تالپور حکمرانوں کے درمیان دوبے اور میانی کی جنگیں لڑی گئیں۔
1843ء میں انگریزوں
نے حیدرآباد پر قبضہ کرکے پکا قلعہ پر اپنا جھنڈا لہرا نے کے بعد ،تمام سند ھ پر
اپنا تسلط مکمل کرنے کا اعلان کر دیا تھا، لیکن سندھ پر قبضہ ہونے کے بعد بھی انہیں
صحرائے تھر میں کولہی برادری کی طرف سےسخت مزاحمت کا سامنا تھا، جس کی قیادت
تھرپارکر کے باغیوں کے تین کمانڈر کررہے تھے۔روپا جی گوہل، جو روپلو کولہی کے نام
سے مشہور ہوئے، سامت کولہی کے خاندان میں پیدا ہوئےتھے۔
اس زمانے میں
ہندوستان کا مشہور ڈاکو بلونت سنگھ چوہان ، نگرپارکر میں روپوشی کی زندگی گزار رہا
تھا، روپلو کی ماں کیسر بائی بھی چوہان تھیں، اس لیے بلونت انہیں اپنی بہن سمجھتا
تھا، یہی وجہ تھی کہ بلونت سنگھ نے روپلو کو فنون حرب سے آشنا کیا۔ بلونت سنگھ
برطانوی فوج کے ساتھ ایک معرکے میں ہلاک ہواتھا۔
ٹھاکرلادھو سنگھ
نگر پارکر کا جاگیردار تھا۔ اس کے بیٹوں نے اپنی جاگیر کے علاوہ آس پاس کے گاؤں
میں بسنے والے تمام افراد کوحکم نامہ بھیجا کہ وہ اپنے جانوروں سے حاصل ہونے والے
دودھ کا ایک حصہ ان کے دربار میں بھیجا کریں۔ ان کے خوف سے لوگوں نے دودھ بچانا
شروع کردیا تھا، جس کے بعد ان کے گھروں میں لسی بلونا بند ہوگئی۔
اس حکم کی شکایت
لے کر علاقہ مکین روپلو کولہی کے پاس پہنچے اور انہیں اپنی بپتا سنائی۔ روپلو نے تمام
فریادیوں سے کہا کہ وہ سوڈھوں کو دودھ کی فراہمی بند کردیں اوراگر اب وہ اس پر ان
سے باز پرس کریں، تو ان سے کہیں کہ دودھ کی فراہمی روپلو نے بند کروائی ہے۔ اس
واقعے کی خبر جب سوڈھوں (ٹھاکروں) کو ہوئی تو وہ مشتعل ہوگئے اور اپنے حواریوں کے
ساتھ روپلو کے گاؤں کنبھاری جا پہنچے۔ روپلو ان کے ردعمل کے لیے پہلے ہی سےتیار
تھا، وہ بھی کنبھاری سے کچھ فاصلے پر اپنے مسلح ساتھیوں سمیت ان کے مدِمقابل آگیا۔
روپلو نے
ٹھاکروں سے کہا کہ آپ لوگوں نے معصوم بچوں کو دودھ اور لسی سے محروم کرکے قہر
برپا کردیا ہے۔ اس ظلم کے سبب رعایا مصیبتوں میں مبتلا ہے۔ٹھاکروں نے عقل مندی سے
کام لیتے ہوئے روپلو کو گلے لگایا اور اپنی غلطی تسلیم کرکے واپس لوٹ گئے۔ اس
واقعے کے بعد روپلو کی قدر و منزلت میں مزید اضافہ ہوگیا اور مقامی لوگ اسے کولہی
برادری کا قومی سردار کہنے لگے۔
سندھ پر برطانوی
فوج کے قبضے اور 1857ء کی جنگ کے بعد انگریزوں نے پورے سندھ پر قبضہ کرتے ہی، تھر
پارکر میں بھی اپنی عمل داری قائم کرلی۔ اُدھر وطن پرستوں کے دلوں میں بھی انگریزوں
کے خلاف نفرت کی آگ بجھی نہیں تھی ، بلکہ وقتاً قوقتاً یہ چنگاریاںبھڑکتی رہتی تھیں۔
تھرپارکر کے مقامی سرداربرٹش اہل کاروں کے احکامات کی پروا نہیں کرتے تھے۔ گجرات کی
طرف آنے ، جانے والوں سے ٹیکس ٹھاکروں کی جانب سے کولہی برادری کے افراد وصول
کرتے تھے۔ انگریزوں نے ان کے یہ حقوق ختم کردیئے تھے،جس پر ٹھاکرمشتعل ہوگئے اور
رانپور کے راجہ رانا سنگھ کے بُلاوے پر تمام سوڈھے (ٹھاکر) اور کولہی انگریز سرکار
کے خلاف بغاوت پر اتر آئے۔ ٹھاکروں کے پاس منظم فوج نہیں تھی، ان کی قوت کا سارا
دارومدار کولہی سپاہیوں پر تھا۔دووسری جانب لادھو سنگھ خود کنبھاری پہنچا اور
روپلو سےانگریزوں کے خلاف لڑنے کے لیے مددمانگی۔ روپلو نے 2 دن کے اندر اندر 5
ہزار کولہی ،جو تیروں، بھالوں، برچھیوں،چھریوں اور کلہاڑیوں سے مسلح تھے، اکٹھے کیے۔
جب جنرل ٹائر
وائٹ کو باغیوں کی تیاری کا احوال معلوم ہوا ،تواس نے پنی فوج کے ساتھ نگر پارکر کی
طرف پیش قدمی کی۔ کولہیوں کا لشکر اونٹوں، گھوڑوں اور پیادوں پر مشتمل تھا، وہ
کنبھاری سے انگریزوں کے خلاف نعرے بلند کرتے ہوئے رانپور کی جانب روانہ ہوئے۔ 15
اپریل 1859ءکی شب روپلو نےجنرل ٹائر کے لشکر پراچانک حملہ کردیا، جس کے نتیجے میں
انگریز فوج کے بے شمارسپاہی ہلاک ہوئے جب کہ بچنے والے فوجی فرار ہوگئے۔
جنرل ٹائرئوائٹ
وہاں سے فرار ہوکرنگر پارکر کے شمال میں گوٹھ پورن واہ کےموچی لادھو مینگھواڑ کے
گھر میں ایک بہت بڑے مٹی کے برتن میں جاکر چھپ گیا۔ اس برتن میں گائےکے چمڑے کو
جوتا بنانے سےقبل بھیگنے کے لیے رکھا جاتا تھا،جس کی وجہ سے اس میں شدید بدبوآرہی
تھی۔ کولہی باغی اس کی تلاش میں اس گھر میں بھی پہنچے، تمام گھر کی تلاشی لی ،لیکن
وہ تعفن کے سبب اس برتن کی جانب نہیں گئے۔ اگلی شب،لادھو نے ایک اونٹ پرسوار کراکے
جنرل ٹائر کو حیدرآباد روانہ کیا۔روپلو کے سپاہیوں نے مختیار کار کے دفتر میں گھس
کرسارا خزانہ لوٹ لیا۔ پولیس کے باغی سپاہی بھی ان کی فوج میں شامل ہوگئے۔
تھانے پر حملہ کیا
گیا، کچہری (عدالت) کو آگ لگا دی گئی، محکمہ مال کا ریکارڈ جلادیا گیا، ٹیلی گراف
کی تاریں کاٹ کر پول گرا دیئے ، یہاں تک کے گجرات اور سندھ کی جانب جانے والے
راستے بھی بند کردئیے گئے۔ ان اقدامات کے بعد تھرپارکر پر ٹھاکروں کی دوبارہ حکم
رانی قائم ہوگئی۔ ٹھاکر لادھو سنگھ راجپوت باغیوں کاسردار تھا، جب کہ سوڈھو کلجی
کولہیوں اور روپلو کولہی کی متحد سپاہ کا کمانڈر تھا، روپلوکے ساتھ 8000جنگ جو
تھے۔
نگر پارکر پر
قبضے کے بعد کولہی یہ سمجھ رہے تھے کہ انہوں نے انگریزوں کو مکمل طور سے علاقے
سےبے دخل کر دیا ہے، لیکن حقیقت اس کے برعکس تھی۔ جنرل ٹائر وائٹ نے حیدرآباد
پہنچتے ہی کرنل ایونزکو پکا قلعہ میں طلب کیا اور اسے ایک بڑی چھاپہ مار فوج تیار
کرنے کا حکم دیا، اس نےکراچی سے توپ خانہ بھی طلب کرلیا ۔ مکمل تیاری کے بعد وہ میرپورخاص،
مٹھی اور اسلام کوٹ فتح کرتے ہوئے ویرواہ پہنچا۔ وہاں پہنچ کر اس نے ٹھاکرلادھو
سنگھ کے لشکر میں شامل راجپوت سپاہیوں سے رابطہ کیا اور انہیں جاگیرو مال و دولت
کا لالچ دے کر اپنے ساتھ ملا لیااور نگر پارکر پر حملہ آور ہوگیا۔
کولہی سپاہ کو
دو طرفہ حملوں کا سامنا تھا، ایک جانب راجپوتوں نے ان پر یورش کی تھی دوسری طرف
برطانوی فوج جدید ہتھیاروں اور توپ خانے سے لیس ان پر حملہ آور ہوئی تھی، حریت
پسندوں نےروایتی اسلحہ ، تلوار، تیر، نیزوں، بھالوں کی مدد سے کافی دیر تک انگریز
فوج کا مقابلہ کیا، سوڈھو کلجی، اس لڑائی میں مارا گیا، جب کہ ٹھاکرلادھو سنگھ کو
گرفتار کرکے قید کرلیا گیا۔
روپلو کولہی
اپنے وفادار ساتھیوں کے ساتھ وہاں سے فرار ہوکر کارونجھر کی پہاڑیوں میں روپوش ہوگیا۔
جنرل ٹائروائٹ نے نگرپارکر کے قریب چندن گڑھ پر توپ خانے کے ساتھ حملہ کیا اور اسے
تباہ و برباد کرنے کے بعد وہاں کی آبادی کو حراست میں لے کر روپلو کے بارے میں
معلومات حاصل کیں۔ چند مقامی افراد کو اپنے مخبروں کے ساتھ روپلو اور اس کےساتھیوں
کی تلاش پر مامور کیا۔
کچھ دنوں بعد
چند برہمنوں نے انہیں اطلاع دی کہ روپلو کولہی رات کے وقت کارونجھر کی پہاڑی کے
پاس ’’پگ وول ‘‘ کنوئیں پر پانی لینے آتا ہے۔ جنرل ٹائر نے کنوئیں کے پاس اپنےچند
سپاہیوں کی ڈیوٹی لگا دی، جو خفیہ طور پر اس کنوئیں کی نگرانی کرنے لگے۔ایک شب جب
وہ پانی لینے کے لیے کنوئیں پر پہنچا، تو برطانوی فوجیوں نے اپنے ٹھکانوں سے باہر
آکر اسے گرفتار کرلیا اور اسے جنرل ٹائروائٹ کے سامنے پیش کیا۔ جنرل نے اس سے اس
کے ساتھیوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن اس نے وفاداری کا ثبوت
دیتے ہوئے اپنے ساتھیوں کے بارے میں کچھ نہ بتایا، یہاں تک کہ برطانوی افواج نے
روپلو کولہی پر ظلم و تشددکی انتہا کردی ، اس کی انگلیوں پر روئی لپیٹ کر انہیں تیل
میں بھگوکرآگ لگا دی گئی، جس سے اس کی انگلیاں بری طرح جھلس گئیں ،لیکن اس پر بھی
اس نے اپنے ساتھیوں کے بارے میں کچھ نہ بتایا۔
آخر تھک ہار
کرجنرل ٹائرنے روپلو کے مستقبل کے بارے میں اپنے ساتھیوں سے رائے طلب کی،راجپوت
سردار، مہاوجی لہانہ ، جو کچھ عرصے قبل تک روپلو کے ساتھ شامل تھا،اس نے جنرل
کومشورہ دیا کہ روپلو کو فی الفورپھانسی دے۔ جنرل کو اس کی تجویز پسند آئی اور اس
نے روپلو کو سزائے موت سنادی۔22؍اگست 1859کو اسے سخت فوجی پہرے میں نگر پارکر کے
جنوب مشرقی علاقےسوئی گام کے مقام پر لایا گیا اور گردھارو ندی کے کنارےلگے ببول
کے درخت کی ڈال پر لٹکا کر پھانسی دے دی گئی۔
روپلو کولہی کی
موت کے بعد اس کی لاش غائب کردی گئی، اس کی والدہ کیسر بائی، بیوی ہمیناوتی اور دیگر
لواحقین ہجرت کرکے کنری آگئے۔پاکستان بننےکے بعد اس کے پوتے دوبارہ نگرپارکرمیں
مقیم ہوگئے، جہاں وہ غربت کی زندگی گزارتے رہے۔ ان کی پڑ پوتی ، کرشنا کولہی عرف
کشو بائی، 12؍مارچ 2018میں پاکستان کی پہلی ہندو دلت خاتون سینیٹر منتخب ہوئیں۔
روپلو کولہی کا یوم وفات ہرسال 22؍اگست کو منایا جاتا ہے ۔
Source: Daily Jang Karachi
Comments
Post a Comment