ناکام ہونا نہیں بلکہ اس امر پہ دل چھوڑ بیٹھنا اصل ناکامی ہے۔ ابراہم لنکن


ابراہم لنکن
-----------------
’’میں ناکام نہیں ہوا،بس میں نے کام کرنے کے 10ہزار ایسے طریقے دیکھے، جو کام نہیں کرتے‘‘۔
تھامس ایڈیسن


-----------------

ابراہم لنکن وکالت کے شعبے میں ایک بار نہیں کئی بار ناکام ہوئے۔ ایک مشہور جملہ جو لنکن اکثر استعمال کرتے تھے وہ یہ کہ ’’ناکام ہونا نہیں بلکہ اس امر پہ دل چھوڑ بیٹھنا اصل ناکامی ہے‘‘۔ ابراہم لنکن کی زندگی بظاہر ایک ایسی کھلی کتاب ہے، جس میں انھیں ایک بار نہیں بلکہ کئی بار ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا۔
·      1832ء میں انھیں ملازمت سے فارغ کیا گیا
·      1833ء میں انھیں ذاتی بزنس میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا
·      1836ء میں نروس بریک ڈاؤن ہوا
·      1843ء میں کانگریس میں نامزدگی کے دوران ناکامی
·      1848ء میں کانگریس میں دُوسری مُدّت کے لیے نامزدگی میں ایک بار پھر ناکامی کا سامنا
·      1854ء میں سینیٹ کے الیکشن میں ناکامی
·      1856ء میںنائب صدر کے لیے نامزدگی میں شکست
·      1858ء میں سینیٹ کے الیکشن میں ایک بار پھر ناکامی کا سامنا اور بالآخر1861ء میں امریکا کے سولہویں صدر کی حیثیت سے منتخب ہونا۔


جدید مثبت نفسیات کے مطابق ناکامی کوئی خوفناک شے نہیں سوائے ایک تجربے کے۔ یہ ہم پر منحصر ہے کہ آئندہ زندگی میں ںیہ تجربات ہماری کامیابی بنتےہیں یا ناکامی۔
تھامس ایڈیسن کہا کرتے تھے،
’’میں ناکام نہیں ہوا،بس میں نے کام کرنے کے 10ہزار ایسے طریقے دیکھے، جو کام نہیں کرتے‘‘۔
سبق:
تھامسن کے جملے اور ابراہم لنکن کی زندگی میں پیش آنے والی ناکامیاں ہمیں یہ درس دیتی ہیں کہ ناکامی سے خوف نہیں کھانا چاہیےکیونکہ یہ ایک ایسا تجربہ ہے جو ہر بار آپ کو مختلف طریقوں سے روشناس کرواتا ہے۔ اسی لیے زندگی میں جب بھی آپ کو کسی ناکامی کا سامنا کرنا پڑے تو خود سے یہ سوال کریں کہ آپ نے اس تجربے سے کیا سیکھا اور یہ کس طر آپ کے لیے مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔

سیاست اور بین الاقوامی تعلقات عامہ میں دلچسپی رکھنے والےافراد اور ان دونوں شعبوں سے وابستہ تمام طالب علم، ابراہم لنکن کی بلند پایہ شخصیت سے واقف ہوں گے۔ ریاستہائے متحدہ امریکا کے پہلے سیاہ فام اور سولہویں صدر’ابراہم لنکن‘ کی شخصیت ویسے تو کسی تعارف کی محتاج نہیں کیوںکہ ان کی محنت اورجدوجہد سے بھرپور زندگی ایک ایسا دور تھا، جسے ان کے رخصت ہوجانے کے اتنے عرصے بعد بھی دنیا بھرمیں مقبولیت حاصل ہے۔ قانون کی حکمرانی، غلامی کا خاتمہ یا پھر امریکا کے عام افراد کی زندگی سہل اورآسان بنانے کے حوالے سے ابراہم لنکن کا نام سنہری حرف میں یاد رکھا جائے گا۔ ابراہم لنکن کی زندگی پر نظر ڈالی جائے تو کھیتی باڑی کرنے یا کینٹکی کے جنگلوں میں پلنے والے بچے کاو اشگٹن ڈی سی تک پہنچنا اور صدارت کے منصب پر فائز ہوجاناناممکن سا لگتا ہے لیکن اس کے باوجود ابراہم لنکن نے یہ سب کر دکھایا۔ یہی وجہ ہے کہ پرخار راستوں پر چلتی ابراہم لنکن کی یہ زندگی عام افراد کے لیے کامیابیوں کے کئی در کھول دیتی ہے، اس میں کئی اسباق موجود ہیں جن کا مطالعہ کسی بھی انسان کو کامیابی سے ہمکنار کرسکتا ہے۔ وہ اسباق کون سے ہیں آئیے جان لیتے ہیں۔
مُفلسی سے امارت تک پہنچنا ناممکن نہیں
ابراہم لنکن کا تعلق کسی خاص طبقے کے بجائے ایک عام طبقے سے تھا۔ وہ تین بہن بھائی (دوبھائی اور ایک بہن )تھے، جن میں ان کانمبر دوسرا تھا۔ زندگی کے ابتدائی سال تلخ ثابت ہوئے کیونکہ ان کی والدہ کی وفات اس وقت ہوئی جب وہ صرف 9برس کے تھے۔ والدہ کی وفات کے بعد ان کے والد نے دوسری شادی کرلی اور یہیں سے ابراہم لنکن کو زندگی کی تلخیوں اور خاردار جھاڑیوں سے واسطہ پڑا۔ ان کا بچپن کینٹکی کے جنگلات میں گزرا، پہلے کھیتی باڑی، پھر پوسٹ ماسٹراور اس کے بعدوکالت کے شعبے سے منسلک ہوجانا،یہ سب ابراہم لنکن کی کڑی محنت اور جدوجہد کا نتیجہ تھا۔ اس جدوجہد کا ثمر انھیں1860ء میں اس وقت ملا جب وہ امریکا کے پہلے سیاہ فام صدر منتخب ہوئے۔
سبق:زندگی میں کامیابی کے لیےیہ بات اہمیت نہیں رکھتی کہ آپ کا بچپن یا ابتدائی حالات کیسے رہے یا پھرآپ کس طبقے یا نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ ابراہم لنکن کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ کامیابی کے لیے اگر کچھ اہم ہے تو وہ محنت، جذبہ اور کامیاب ہونے کی لگن ہے۔ جنگل میں پلنے والے بچے کے لیے امریکا کے صدر بننے کا خواب بظاہر ناممکن نظر آتا ہے لیکن ابراہم لنکن کی زندگی اس سلسلے میں ایک ایسی مثال ہے، جوسیاست یا زندگی کے کسی بھی شعبے میں اقربا پروری کو مات دے دیتی ہے۔ ماہرین ان کی زندگی کو ”مفلسی سے امارت تک پہنچنے والے“ (Rags to riches) سے تعبیر کرتے ہیں ۔
دوستوں سے قریب رہو اور دشمنوں سےقریب تر
ہم میں سے زیادہ تر لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ دوستوں سے رابطہ رکھیں اور دشمنوں سے جتنا ہوسکے دور رہیں لیکن ابراہم لنکن کی زندگی ایک بالکل مختلف سبق دیتی ہے۔ ابراہم لنکن کا کہنا ہے کہ انسان کو کامیابی کے لیےدوستوں سے قریب اور دشمنوں سےقریب تر رہنا چاہیے۔ یہی وجہ تھی کہ ان کی کابینہ میں حریفوں کا سب سے زیادہ تقرر کیا گیا، یہی نہیں ابراہم لنکن ان سے اکثر مواقع پر مشورے بھی لیاکیا کرتے تھے۔
سبق:اس طرز عمل سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ آپ کی ٹیم میں نہ صرف اتحادی بلکہ مخالفین بھی شامل ہونے چاہئیں کیونکہ ان کی موجودگی آپ کو چاق و چوبند اور ہر وقت چوکنا رکھے گی۔ ساتھ ہی ان کی بصیرت اور مہارتوں سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔

رابعہ شیخ


Source: Daily Jang

Comments

Popular posts from this blog

وطن جي حب

اسان جو وطن (پيارو پاڪستان)

محنت ۾ عظمت