موہن جو ڈارو


موہن جو ڈارو

 موہن جو ڈارو یا ”مردوں کا ٹیلہ “ دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ یہ لاڑکانہ سے 27 کلومیٹر کے فاصلے پر دریائے سندھ کے دائیں کنارے پر ہے۔ آج کل وہاں چند لوگ رہتے ہیں۔ لیکن 4500 سال پہلے یہ ایک بڑا اور پُررونق شہر تھا۔ 1922 تک کوئی بھی اس کے متعلق نہ جانتا تھا جب کچھ دیہاتیوں کو اس جگہ سے پرانے اور چکنے برتنوں اور پرانی اینٹوں کے ٹکڑے ملے۔ جہاں اب دریافت شدہ شہر واقع ہے۔

یہ پرانے برتنوں کے ٹکڑے ایک انگریز افسر سر جان مارشل کے پاس لائے گئے اس کا کام قدیم عمارتوں کی طرح کے تاریخی کھنڈرات کی دیکھ بھال کرنا اور دوسری قدیم چیزوں کی جیسے برتنوں اور اینٹوں کے یہ ٹکڑے تھے۔انھیں خود بھی تاریخ سے بہت دلچسپی تھی اور ایسے کھنڈرات کے متعلق معلومات کرنے کے لیے متجسس تھا اس لیے جب اس نے ان کو غور سے دیکھا، وہ فوراً سمجھ گیا کہ یہ بہت پرانے برتنوں کے ٹکڑے ہیں۔ اینٹوں کے متعلق اس نے کہا کہ شاید یہاں پر کبھی کوئی شہر تھا جو اس ریت اور مٹی کے ٹیلے کے نیچے دبا ہوا ہے۔آﺅ ہم اس کی کھدائی کریں۔ شاید ہم ایک قدیم شہر کے کھنڈرات دریافت کر لیں۔

اس لیے آدمیوں نے کھدائی شروع کر دی۔ جیسے جیسے وہ کھدائی کرتے رہے اس قسم کے ٹکڑے برآمد ہوتے رہے یہاں تک کہ آہستہ آہستہ سیدھی سڑکوں اور اچھے بنے ہوئے مکانات والا ایک شہر نظر آنے لگا۔ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ وہ لوگ کتنے حیرت زدہ اور خوش ہوں گے جب اُنھوں نے دیکھا کہ یہ سب کچھ اس میں سے نکل رہا ہے جسے وہ صرف مٹی اور ریت کا ٹیلہ خیال کرتے تھے۔ ہر مکان بڑی پختہ اینٹوں کا بنا ہوا تھا اور اس میں غسل خانہ اور نوکروں کے کواٹرز تھے۔

ڈھکی ہوئی نالیاں گلیوں کے ساتھ ساتھ بہتی تھیں۔گلیاں بھی پُختہ اینٹوں کی بنی ہوئی تھیں۔گاڑیاں اور دوسری قسم کی نقل و حرکت کی سواریاں شہر کے مرکز میں آ سکتی تھیں۔آپ اب بھی اس بڑے ہال کو دیکھ سکتے ہیں جہاں اناج ذخیرہ کیا جاتاتھا اب بھی وہاں ایک چوڑی سڑک ہے جس کے درمیان میں خریدوفروخت کامرکز تھا جس کے دونوں جانب دُکانیں تھیں۔ یہی سڑک آگے چل کر مزدوروں کے مکانوں کو جاتی ہے۔

اس شہر کے لوگ بڑے تاجر رہے ہوں گے کیونکہ دریائے سندھ ان کے بہت قریب تھا اور سمندر بھی ان کی دسترس میں تھا دیہاتی علاقہ ضرور زرخیز ہو گا جہاں وہ گندم چاول اور کپاس اُگاتے تھے ۔کسان مویشی بھی رکھتے تھے ۔یہاں ماہر کاریگر تھے جو سونے چاندی اور ہاتھی کے دانت کا کام کرتے تھے۔مٹی کے کھلونے اور چھکڑے بچوں کے کھیلنے کے لیے بنائے جاتے تھے۔بہت سی اقسام کی مہریں جو وہاں دستیاب ہوئی ہیں۔ان سے ہم نے اندازہ لگایا ہے کہ حکمران طبقہ، مذہبی پیشوا اور بزرگ کیسا لباس پہنتے تھے۔وہ لمبے اور ڈھیلے لباس پہناکرتے تھے۔

قریب ہی عجائب گھر ہے جہاں موہن جو ڈارو سے ملی ہوئی دلچسپ اشیا نمائش کے لیے رکھی ہوئی ہیں۔ان میں مہریں زیورات کھلونے ہتھیار اور نقش و نگار والے برتن شامل ہیں۔ موہن جو ڈارو کی بہترین دریافت ایک بیل کا سر ہے جو مہر کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ ایک ناچتی ہوئی لڑکی کا دھات کا مجسمہ بھی دریافت ہوا ہے۔ دھات کے اوزار بھی ملے ہیں۔ ان دھات کی اشیا ہی کی وجہ سے شہر کا زمانہ تقریباً ساڑھے چار ہزار سال پرانا قرار دیاجاتا ہے۔

عرصہ دراز تک ان لوگوں نے خوش و خرم زندگی بسر کی۔ وہ بہت امیر لوگ تھے اور کاروبار یا تفریح کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ کا سفر کرتے تھے۔ ان کا شہر اچھے منصوبے کے تحت تعمیر کیا گیا تھا۔بارش کا پانی گلیوں میں نہیں رُکتا تھا۔ ہم نہیں جانتے کہ بعد میں ان کے ساتھ کیا ہوا۔ یا تو شمال کی طرف سے ان پر حملہ کیا گیا۔ یا کسی بڑے زلزلے نے ان کو تباہ کر دیا۔کوئی شخص بھی ابھی تک ان الفاظ کے معنی نہیں جان سکا جو مہروں اور برتنوں پر لکھے ہوئے ہیں۔ بہت کچھ جانا جا سکتا ہے اگر پرانی زبانوں کے ماہر ان الفاظ کو پڑھ سکیں۔

بہت قابل لوگ اور سیاح اس جگہ آتے ہیں۔ وہ صرف پاکستان سے ہی نہیں آتے بلکہ دنیا بھر سے آتے ہیں۔ہمیں اُمید کرنی چاہیے کہ ان کی کوششیں ان الفاظ کو سمجھنے میں کامیاب ہوںگی۔ پھر ہم اس مُردہ تہذیب کے بارے میں جو آج جانتے ہیں اس سے کہیں زیادہ جان سکیں گے۔







Comments

Popular posts from this blog

وطن جي حب

اسان جو وطن (پيارو پاڪستان)

محنت ۾ عظمت