ہمارا نظامِ تعلیم اور روزگار


 

ایک زمانہ تھا کہ ہر نوجوان:
·      جسے دیکھو شارٹ ہینڈ سیکھ رہا ہے۔
·      جسے دیکھو ٹائپنگ سیکھ رہا ہے۔
·      جسے دیکھو کمپیوٹر سیکھ رہا ہے۔
·      جسے دیکھو بی کام کر رہا ہے۔
·      جسے دیکھو ایم بی اے کر رہا ہے۔
·      جسے دیکھو ڈپلوما کر رہا ہے۔
·      جسے دیکھو ’’سی آے‘‘ کر رہا ہے۔
وغیرہ وغیرہ
یہ سب کیا تھا اور کیوں تھا؟
اور آج کل کی بھیڑ چال کیا ہے؟
یہ سوچ، دؤرِ غلامی کا تسلسل تھا۔
·      یہ سب بھیڑ چالیں اپنی آنکھوں سے دیکھیں جن میں سے بعض بھیڑ چالوں کا میں خود حصہ بھی بنا۔
·      میٹرک تک بچہ بالکل کنفیوژ رہتا ہے کہ وہ کس فیلڈ کی طرف جائے گا۔
·      میٹرک کے بعد دو سال کا عرصہ بڑا قیمتی ہوتا ہے اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جب ہمارے نوجوانوں کی اکثریت بھٹک جاتی ہے۔



ہمارے یہاں بے روزگاری کی ایک بڑی وجہ،  بھیڑچال بھی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ ہر نوجوان، ٹائپنگ اور شارٹ ہینڈ سیکھ رہا ہوتا تھا۔ کہ اس سے آدمی کسی سرکاری ادارے میں اسٹینوگرافر یا ’صاحب‘  کا ’پی اے‘ لگ سکتا تھا۔ یہ سوچ، دؤرِ غلامی کا تسلسل تھا۔

اس کے بعد بی کام کرنے کا رجحان پیدا ہوا۔ جسے دیکھو بی کام کر رہا ہے۔ ان سے جب کوئی پوچھتا کہ بی کام کے بعد کیا ارادے ہیں؟ تو جواب ملتا: ’’سی آے‘‘۔ یعنی چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ۔

جب کراچی میں آئی بی اے قائم ہوا تو سی اے کرنے کے بجائے، آئی بی اے سے، ایم بی اے کرنے کا رجحان بڑھا۔

اسی دوران، پولی ٹیکنک کالجز میں جانے کا رجحان بھی پیدا ہوا۔ جسے دیکھو کسی پولی ٹیکنک کالج میں داخلہ کے لیے ہلکان و پریشان ہو رہا ہے۔ یہاں تک کہ مجھے یاد پڑتا ہے کہ لوگوں نے انجینیئرنگ کالجز پر پولی ٹینکنک کو ترجیح دی۔

اس کے بعد کمپیوٹر آ گیا۔ تو جو اسٹینوگرافر اور صاحب کا پی اے بننے والا دماغ تھا وہ کمپیوٹر کے شارٹ کورسز کی طرف چلا گیا۔ اخبارات، ’’کوبول‘‘، ’’پاسکل‘‘، ’’فورٹران‘‘، ’’الگول‘‘ وغیرہ جیسے کمپیوٹر لینگویجز سکھانے کے اشہتاروں سے بھرے ہوتے تھے۔ ’’کی پنچ آپریٹر‘‘ کی جاب حاصل کرنا بھی ایک اعزاز تھا۔

اس کے بعد فوج میں ’سیکنڈ لیفٹیننٹ‘ بھرتی ہونے کا دؤر چلا۔ جسے دیکھو، ہیر اسٹائل سے فوجی نوجوان لگ رہا ہے، ہاتھ میں آئی ایس بی کے امتحان پاس کرنے کی گائیڈ و دیگر کتب اور لگے ہوئے ہیں دن رات امتحانات کی تیاری میں۔ سی ایس ایس وغیرہ کا رجحان بھی انہی دنوں میں زیادہ بڑھا۔ وجہ اس کی غالباَ یہ تھی کہ بیوروکریسی اور فوج کے اختیارات، پاور اور لائف اسٹائل سے نوجوان متاثر ہو کر اس کو حاصل کرنے کے سپنے آنکھوں میں سجا لیتے تھے۔

یہ سب بھیڑ چالیں اپنی آنکھوں سے دیکھیں جن میں سے بعض بھیڑ چالوں کا میں خود حصہ بھی بنا۔

یہ سب کیا تھا اور کیوں تھا؟ اور آج کل کی بھیڑ چال کیا ہے؟ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ملک کے نہ تو تعلیمی اداروں میں اور نہ تعلیمی اداروں سے باہر، نوجوانوں کی کیرئیر پلاننگ کے لیے سرکاری سطح پر کوئی ادارہ موجود ہے جو نوجوانوں کے رجحانات اور مارکیٹ کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے ان کی مستقبل کے لحاظ سے کوئی رہنمائی کرے۔

میٹرک تک بچہ بالکل کنفیوژ رہتا ہے کہ وہ کس فیلڈ کی طرف جائے گا۔ اکثر بچے وہی فیلڈ اختیار کرنا چاہیں گے جس میں ان کے کلاس فیلوز یا اچھے دوست جا رہے ہوں گے۔ باوجود اس کے کہ ہر فرد کے رجحانات اور صلاحیتیں ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں۔

میٹرک کے بعد دو سال کا عرصہ بڑا قیمتی ہوتا ہے اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جب ہمارے نوجوانوں کی اکثریت بھٹک جاتی ہے۔ وہ دوستوں کی دیکھا دیکھی کوئی فیلڈ لے لیتے ہیں لیکن آگے چل کر پتہ چلتا ہے کہ جس رخ پر وہ جا رہے ہیں وہ تو ان کے مطلب کا نہیں۔

اس تحریر کا جو مقصد، وہ والدین کو ایک اہم بات کی طرف متوجہ کرنا ہے وہ یہ کہ آٹھویں کلاس تک بچے کے رجحان کا بغور جائزہ لیتے رہیں کہ وہ کس فیلڈ کے لیے فٹ رہے گا اور اس کے بعد فیصلہ کر لیں کہ میٹرک کے بعد اسے کس طرف بھیجنا ہے۔

یعنی فیلڈ کا تعین میٹرک سے پہلے پہلے کر لیا جائے۔ اسی دوران اگر ممکن ہو تو بچے کو کسی نہ کسی ہنر سیکھنے پر ضرور لگا دیں۔

ہنر ایسی چیز ہے جو ساری عمر انسان کے کام آتی ہے۔ آدمی دیس میں ہو، پردیس میں ہو، بے روزگار ہو ۔۔۔۔ یہ ہنر اسے ہاتھ پھیلانے سے بچا کر رکھے گا اور اگر اپنی فیلڈ کی نوکری نہ بھی ملی تو وہ، سیکھے جانے والے ہنر ہی کو اپنی فیلڈ بنا کر آگے بڑھ سکتا ہے۔

میرا مطلب کوئی ایسا ہنر نہیں ہے جو بڑا ہائی فائی یا وائٹ کالر قسم کا ہو بلکہ عام ہنر کی بات کر رہا ہوں۔ مثلاَ: کارپینٹری، الیکٹرک کا کام، ککنگ کا کام (شیف)، موٹرسائیکلیں اور گاڑیاں ٹھیک کرنے کا کام، پلمبنگ اور گھروں کی مینٹیننس اور رنگ روغن  کا کام۔ اے سی فریج، واشنگ مشین وغیرہ ٹھیک کرنے کا کام، ویلڈنگ، ڈرائنگ، مکانوں کے نقشے بنانا اور تعمیرات کا کام ۔۔۔۔ غرض یہ کہ اس طرح کے ہزاروں کام ہیں جو آپ کے آس پاس بکھرے ہوئے ہیں۔

ان میں سے اپنی سہولت اور پسند کے لحاظ سے کوئی ایک ہنر ضرور اپنے بچے کو سکھا دیں اور یہ ہنر، دورانِ تعلیم، دو تین گھنٹے کہیں لگا کر، پارٹ ٹائم سیکھے جا سکتے ہیں۔

میں تو کہتا ہوں کہ گھر کی بچیوں کو بھی کوئی نہ کوئی ہنر ضرور سکھا دیں۔ اور نہیں تو ان کو کمپیوٹر پروگرامنگ اور ویب ڈئزائننگ ہی سکھا دیں۔ تاکہ وہ  گھر پہ فارغ نہ رہیں بلکہ کچھ نہ کچھ ایسا کریں جو نہ صرف ان کی صلاحیتوں کو مہمیز دے بلکہ باعزت روزگار اور کچھ نہ کچھ آمدن کا ذریعہ بھی بن جائے۔

یقین جانیں آئی ٹی کے لحاظ سے پاکستان میں اتنا پوٹینشل ہے کہ اگر ہماری قوم کو سمجھ میں آ جائے تو سب اسی فیلڈ میں آ جائیں۔ کیوں کہ آئی ٹی کی مارکیٹ پوری دنیا ہے۔ آپ کوئی ایسا کام کر ڈالیے جو منفرد اور یونیک ہو اور جس کی ڈیمانڈ ہو، گھر بیٹھے لکھ پتی بن جائیں گے، اور یہ مفروضے نہیں ہزاروں زندہ مثالیں موجود ہیں۔

کہتے ہیں کہ جوتے بنانے والی ایک کمپنی نے اپنے دو افسران کو مختلف اوقات میں افریقہ کے کچھ علاقوں میں بھیجا تاکہ وہ کمپنی کی پروڈکٹس کے بارے میں جائزہ لے کر رپورٹ پیش کریں۔

ایک سیلز مین نے واپس آ کر رپورٹ پیش کی کہ افریقہ میں اتنی غربت ہے کہ لوگوں کے پاس جوتے تک خریدنے کے پیسے نہیں، اس لیے ہماری پروڈکٹ وہاں لانچ کرنا ایک حماقت کے سوا کچھ نہ ہوگا۔

دوسرے سیلز مین نے واپس آ کر رپورٹ پیش کی کہ افریقہ میں ہمارے بزنس کے لیے زبردست پوٹینشل موجود ہے۔ لاکھوں لوگوں کے پاس جوتے ہی نہیں ہم ان کے لیے، ان کی قوتِ خرید کے لحاظ سے جوتے بنائیں گے اور خوب کمائیں گے۔

اب دیکھیں دو افراد ہیں، ایک ہی علاقہ ہے اور سوچ کے دو مختلف زاویے ہیں۔

آخری بات۔

حکومت کے آسرے پر مت رہیں۔ لاکھوں گریجویٹ، انجینیر، ڈاکٹر وغیرہ تعلیم مکمل کر چکنے کے بعد ڈگریاں ہاتھ میں لیے بے روزگار بیٹھے ہیں کہ جابز ہی نہیں  بلکہ جو لگے ہوئے ہیں ان کو بھی نوکریاں گنوانے کا خطرہ چپکا ہوا ہے۔

اس لیے فوراَ کاٹج انڈسٹری اور ذاتی کام کی طرف جائیں۔ چائنا جو آج اتنا بڑا معاشی سپر پاور بنا ہوا ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لوگوں نے گھروں ہی میں چیزیں بنا بنا کر ایکسپورٹ کرنا شروع کردیں جس سے ملک مٰیں ڈالروں کی بارش ہونے لگی اور آج نتیجہ آپ کے سامنے ہےکہ سنا ہے کہ بیرونی قرضوں کی مد میں، امریکہ چین کا سب سے بڑا مقروض ملک ہے۔

Source: Social Media

Comments

Popular posts from this blog

اسان جو وطن (پيارو پاڪستان)

وطن جي حب

محنت ۾ عظمت