’’چل میری رانی شاباش، چل میری رانی‘‘ عطا ء الحق قاسمی



’’چل میری رانی شاباش، چل میری رانی‘‘
عطا ء الحق قاسمی

یورپی لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُنہیں جانوروں سے بہت محبت ہے حالانکہ میرے نزدیک جانوروں سے محبت میں ہم لوگ بھی کسی سے پیچھے نہیں۔

ہم لوگ تو گھوڑی کو بھی رانی اور شہزادی کا درجہ دے ڈالتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو کسی بھی کوچوان کی گفتگو سن لیجئے، جو وہ چھانٹا ہاتھ میں پکڑے اپنی گھوڑی سے کر رہا ہوتا ہے،

’’چل میری رانی شاباش، چل میری رانی‘‘ وغیرہ!

یہ علیحدہ بات ہے کہ اُس کے باوجود وہ اگر سست روی کا مظاہرہ کرے تو کوچوان چھانٹے کو ’’بروئے کار‘‘ لاتے ہوئے اُس کا حسب نسب تبدیل کر دیتا ہے۔ جانوروں کو اِس سے زیادہ اور کیا مقام دیا جا سکتا ہے کہ ہم لوگ بوقت ضرورت گدھے کو بھی باپ بنا لیتے ہیں۔


باقی باتیں تو چھوڑیں، ہم لوگوں نے تو جانوروں کو اپنی رومانوی کہانیوں میں بھی جگہ دے رکھی ہے۔

جانوروں کے ساتھ ہم لوگوں کی قلبی بلکہ ’’کلبی‘‘ وابستگی کا یہ عالم ہے کہ ہم لوگ شعوری طور پر اُنہیں انسانوں سے افضل سمجھنے لگے ہیں، چنانچہ اِس ضمن میں اپنی محبوبہ کی حرمت بھی مدِنظر نہیں رکھتے یعنی

·      آنکھوں کی تعریف کرنا ہو تو بجائے یہ کہنے کے کہ تمہاری آنکھیں فلاں خاتون کی طرح خوبصورت ہیں، ہم اُس بےچاری کو فوراً کسی جانور سے ملائیں گے کہ تمہاری آنکھیں ہرنی جیسی ہیں،
·      اُس کی چال کی تعریف کرنا ہو تو پھر کسی جانور ہی کا سہارا لینا پڑے گا کہ تمہاری چال مورنی کی طرح ہے۔
یہ ٹھیک ہے کہ ہم جانوروں ایسی زندگی بسر کر رہے ہیں لیکن اِس کا یہ مطلب تو نہیں کہ ہم جانوروں کو خود سے برتر بھی سمجھنا شروع کر دیں۔
ہم لوگ جانوروں سے اِس قدر مرعوب ہو چکے ہیں کہ ہر معاملے میں اُن سے مماثلت تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

بھئی اگر کوئی بہادر ہے تو یہ کہنے کی کیا ضرورت ہے کہ وہ شیر کی طرح بہادر ہے۔
حتیٰ کہ ہم نے اگر کسی کی برائی بھی کرنا ہو تو بھی اُس کے مدمقابل کوئی جانور لاکھڑا کرتے ہیں۔ بے وقوف کہنے کی بجائے کہہ دیں گے کہ یار تم تو نرے گدھے ہو۔

احمق کو الّو کا خطاب بخش دیں گے حالانکہ یورپ میں الّو کو فلاسفر سمجھا جاتا ہے۔

میرے نزدیک یہ طرزِ عمل احساسِ کمتری کا نتیجہ ہے ورنہ اگر ہم کبھی تنہائی میں اپنے کارناموں کا جائزہ لیں تو یقیناً اِس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ہم لوگ جانوروں سے کسی طور بھی کم نہیں۔

مجھے کچھ اور مثالیں بھی یاد آگئی ہیں، مثلاً

·      اگر کوئی چالاک یا دھوکے باز ہے تو اسے ’’لومڑی‘‘ قرار دے ڈالیں گے۔
·      کسی زہریلے مزاج کے شخص کو ڈائریکٹ سانپ کہہ دیں گے۔
·      سیدھے سادے شخص کے لئے ہم نے ’’گائے‘‘ کا خطاب چن رکھا ہے۔
·      ہم نے تو کار کی رفتار کو ’’ہارس پاور‘‘ کے کھاتے میں ڈال دیا ہے۔

اقبال کا تو آئیڈیل ہی شاہین (عقاب) ہے۔
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں

Comments

Popular posts from this blog

اسان جو وطن (پيارو پاڪستان)

وطن جي حب

محنت ۾ عظمت