’’لیلتہ الجائزہ‘‘ (انعام کی رات) عیدالفطر - سیّد علی جیلانی



عید عربی زبان کا لفظ ہے جو اردو میں بھی بولا جاتا ہے یہ عود سے بنا ہے جسکے معنی پلٹ کر آنا اور واپس پھرنا ہے اس طرح عید کے معنی خوشی کا دن اور تہوار بھی بیان کئے گئے، قرآن کریم میں بھی یہ لفظ آیا ہے۔

عیدالفطر کا تہوار درحقیقت اس عہد کی تجدید ہے کہ ہم سب کا پروردگار ایک ہے، سب آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں، نسلی، لسانی، علاقائی اور دیگر تفریقیں اسلام کے منافی ہیں شرف انسانیت اور فضیلت کی بنیاد صرف اور صرف ’’تقویٰ‘‘ ہے اور یہ ہی حقیقت میں روزے کی اساس اور عید کی حقیقی روح ہے۔

عہد رسالتﷺ سے آج تک پوری دنیا کے مسلمان اس عظیم دن کو ایک خاص اہتمام کے ساتھ مناتے ہیں۔ عیدالفطر درددل کا پیغام اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ اس کی حقیقی خوشی ہمیں تزکیہ نفس، صبروایثار اور تقویٰ و خوف خدا کی خصوصی مشق کے بعد حاصل ہوتی ہے۔


عیدالفطر کے دن رمضان المبارک کا پورا مہینہ عبادت اور اطاعت میں گزارنے کے بعد مومنوں کو انعام و اکرام سے نوازا جاتا ہے۔

سورۃ المائدہ میں آیا ہے کہ تب دعا کی عیسیٰ ابن مریم نے کہ اے ہمارے رب ہم پر آسمان سے خوان نعمت نازل فرما جو ہمارے لئے عید ہو، ہمارے پچھلوں اور اگلوں کے لئے ایک نشانی تیری طرف سے اور رزق دے ہم کو اور تو سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔

عید ہر سال پہلی شوال کو آتی ہے اور انشاء اللہ قیامت تک آتی رہے گی۔ اسلام میں عید کی خوشیاں محض زیب و زینت، خوش پوشی اور خوش عیشی، کھانے پینے میں توسیع اور معطر ہونے میں نہیں بلکہ خدا کی عبادت اور اپنے گناہوں کو معاف کرانے میں پوشیدہ ہے۔

عید کو صرف عیش اور ظاہری زیب و زینت کی نظر کس طرح کیا جاسکتا ہے جب کہ یہ رمضان المبارک کے روزوں اور تراویح کے ادا کرنے اور اللہ کے حکم پر سرتسلیم خم کردینے پر ایک تحفہ اور انعام ہے۔ روزے اور تراویح عظیم عبادت ہیں تو ان پر ملنے والا انعام بھی عبادت ہی کی شکل میں ہوسکتا ہے۔

پورے ایک ماہ تک جب بندہ اطاعت و فرماں برداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو زیور تقویٰ سے آراستہ کرنے کی کوشش کرتا ہے اور آخر میں جہنم سے آزادی کا پروانہ حاصل کرتا ہے تو اس کی خوشیاں انتہا کو پہنچ جاتی ہیں اور وہ اس سخت امتحان کا نتیجہ دیکھنے کیلئے بار بار افق آسمان پر نظر دوڑاتا ہے تاکہ ہلال عید نمودار ہوکر اس کی ریاضت و مشقت کے بعد فرصت و خوشی کا پیغام لائے اور جب ہلال عید نمودار ہوتا ہے تو اس کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھتا ہے، خوشیاں اس کے آنگن میں ڈیرا ڈال لیتی ہیں اور مسرت و شادمانی سے سرشار ہوکر وہ اپنا انعام لینے کی تیاریاں کرتا ہے۔

حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

جب عیدالفطر کی رات ہوتی ہے تو اس کا نام آسمانوں پر ’’لیلتہ الجائزہ‘‘ (انعام کی رات) سے لیا جاتا ہے اور جب عید کی صبح ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتے ہیں وہ زمین پر اتر کر تمام گلیوں، راستوں کے سروں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور ایسی آواز سے جس کو جنات اور انسانوں کے علاوہ ہر مخلوق سنتی ہے پکارتے ہیں کہ

اے محمدؐ کی امت اس کریم رب کی بارگاہ کی طرف چلو جو بہت زیادہ عطا فرمانے والا ہے اور بڑے بڑے قصور کو معاف فرمانے والا ہے

جب لوگ عیدگاہ کی طرف نکلتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے دریافت فرماتے ہیں کیا بدلہ ہے اس مزدور کا جو اپنا کام پورا کر چکا ہو وہ عرض کرتے ہیں کہ ہمارے معبود اس کا بدلہ یہ ہی ہے کہ اس کی مزدوری پوری پوری دے دی جائے،

پھر خدا فرماتا ہے اے فرشتوں میں تمہیں گواہ بناتا ہوں میں نے اپنے ان بندوں کو رمضان کے روزوں اور تراویح کے بدلے میں اپنی رضا اور مغفرت عطا کردی اور بندوں سے خطاب فرما کر ارشاد ہوتا ہے کہ

میرے بندو مجھ سے مانگو میری عزت کی قسم آج کے دن مجھ سے اپنی آخرت کے بارے میں سوال کرو گے عطا کروں گا، دنیا کے بارے میں جو سوال کروگے اسمیں تمہاری مصلحت پر نظر کروں گا، جب تک تم میرا خیال رکھو گے تمہاری لغزشوں پر ستاری کرتا رہوں گا ان کو چھپاتا رہوں گا بس اب بخشے بخشائے اپنے گھروں کو لوٹ جائو تم نے مجھے راضی کردیا اور میں تم سے راضی ہوگیا۔

Comments

Popular posts from this blog

اسان جو وطن (پيارو پاڪستان)

وطن جي حب

محنت ۾ عظمت