روہڑی شہر - چوہدری محمد ارشاد



 یہاں کی مٹی میں کم و بیش سوا لاکھ اولیائے کرام اور بزرگان دین آسودہ خاک ہیں جس کے سبب اس شہر کو روہڑی شریف بھی کہا جاتا ہے۔(مشہور کہاوت)
  
                  کالا دیوی کا مندر
                  سات سہیلیوں کے مزار (ستین جو آستان)
                  اروڑ راجکمار ’’دھج رور کمار‘‘
                  قدیم تخت گاہ اروڑ کے کھنڈرات
                  لینس ڈائون پل
                  ملک کی سب سے بڑی سڑک نیشنل ہائی وے (جی ٹی روڈ)
                  ریلوے اسٹیشن پاکستان کا دوسرا بڑا جنکشن
                  سندھ کی پہلی دریائی بندرگاہ (1200ء)
                  962ء میں ایک عظیم زلزلے نے شہر کو تہہ و بالا کردیا
                  سیر و تفریح کے لئے یہ ایک بہترین مقام


روہڑی شہر سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر کی تحصیل ہے جو کہ روہڑی کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے۔ روہڑی شہر، پاکستان کے دیگر شہروں کے مقابلے میں ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔۔ سکھر شہر اس قصبہ سے صرف 5 کلو ميٹر کے فاصلے پر واقع ہے، درمیان میں صرف دریائے سندھ حائل ہے۔


روہڑی شہر ٹھٹھہ، شکارپور اور سہیون شہر سے کافی مماثلت رکھتا ہے۔ جغرافیائی حوالے سے بھی روہڑی اپنی منفرد شناخت رکھتا ہے۔ اس کے مغرب میں باغات ، جنوب میں پہاڑیاں، شمال میں دریائے سندھ جبکہ مشرق میں صحرا۔

دریا کے کنارے پر ہونے کی وجہ سے اس شہر کی راتیں بہت ٹھنڈی اور پر لطف ہوتی ہیں۔

اس کا طرز تعمیر قدیم عمارات پر مبنی ہے۔ شہرکی گلیاں اوپر اور نیچے کی طرف بنی ہوئی ہیں۔ اگر ایک گلی میں چلیں تو کبھی نیچے اور کبھی اوپر کی طرف چلنا پڑتا ہے۔ کہیں کہیں تو سیڑھیاں بھی بنی ہوئی ہیں اوپر چلنے سے شہر کی اکثر عمارتیں نیچے دکھائی دیتی ہیں۔

روہڑی شہر میں رہائش پذیر افراد کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لئے بات کی جائے تو اس شہر کا انفرا اسٹرکچر بھی اپنی مثال آپ ہے، گندے پانی کی نکاسی کے لئے پرانے دور کی طرز پر نالیاں بنائی گئی ہیں، شہر کی ہر گلی میں فرش بندی کی گئی ہے۔

·       سندھ گزیٹیئر کے مطابق ’’روہڑی‘‘ شہر کو سید رکن الدین نے 996 ہجری 1297ء میں تعمیر کرایا تھا  لیکن بعد کی تحقیق کے مطابق یہ قبل از مسیح کا شہر ہے اور سہیون و ٹھٹھہ کا ہم عصر ہے۔ یہ تینوں شہر اپنے دور میں علم و ادب اور تہذیب وتمدن کے اہم مراکز تھے۔
·      روہڑی شہر کو اروڑ راجکمار ،’’دھج رور کمار‘‘ نے 5ویں صدی قبل مسیح میں تعمیر کرایا تھا جو اسی کے نام سے موسوم ہونے کے بعد اروڑ کہلایا۔
·      8 ویں صدی عیسوی میں اروڑ خاندان کے بعد رائے خاندان اور برہمنوں نے حکومت کی۔
·      711ء میں اروڑ پر مسلمان جرنیل محمد بن قاسم کی فوج نے قبضہ کرلیا۔
·      962ء میں ایک عظیم زلزلے نے شہر کو تہہ و بالا کردیا جس کی وجہ سے دریائے سندھ کی گزرگاہ بھی تبدیل ہوگئی۔
·      335 ہجری میں دریائے سندھ کے رخ بدلنے کی وجہ سے اروڑ کے رہنے والوں نے نقل مکانی کرکے بکھر جزیرہ کے گرد رہنا شروع کیا جس کے باعث یہ شہر آباد ہوا۔
·      تاریخی حوالوں کے مطابق روہڑی کو پہلے ’’لوہری‘‘ یا ’’لوہر کوٹ‘‘ کہا جاتا تھا، روہڑی کا موجودہ نام دراصل ’’روڑی‘‘ سے بنا ہے، جس کا مطلب چھوٹا پتھر یا ’’پہاڑی‘‘ ہے۔
·      1200ء میں روہڑی دریائے سندھ کے کنارے ایک مصروف بندرگاہ کی حیثیت رکھتا تھا۔
·      موسم کے اعتبار سے گرمی بہت پڑتی ہے جبکہ سردی بھی اچھی خاصی ہوتی ہے۔
·      روہڑی شہر تقریباً دس کلو میٹر مربع اراضی پر پھیلا ہوا ہے۔
·      روہڑی ریلوے اسٹیشن پاکستان کا دوسرا بڑا جنکشن ہے جہاں سے ملک کے چاروں صوبوں کے شہروں کے لئے گاڑیاں چلتی ہیں۔ یہاں پاکستان ریلوے کا ورک شاپ (لوکوشیڈ) بھی ہے جہاں ریلوے انجن اور بوگیوں کی مرمت کی جاتی ہے۔
·      ملک کی سب سے بڑی سڑک نیشنل ہائی وے جسے جی ٹی روڈ بھی کہا جاتا ہے شہر کے ساتھ سے گزرتی ہے۔ اس شاہراہ کے ذریعے کراچی کے علاوہ پنجاب، سرحد اور بلوچستان کے کسی بھی شہر سے اپنی گاڑی یا بس وغیرہ میں پہنچا جا سکتا ہے۔
·      شہر میں سواری کے لئے تانگہ، رکشہ اور سوزوکی پک اپ چلتی ہیں۔
·      سیاحت کے اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو دریا کے کنارے آباد ہونے کی وجہ سے سیر و تفریح کے لئے یہ ایک بہترین مقام سمجھا جاتا ہے۔
·      دریائے سندھ میں موجود تین جزیرے اس شہر کے انتہائی قریب واقع ہیں۔
·      اندرون و بیرون شہر سے آنے والے لوگ بھی اکثر و بیشتر دریا کے کنارے یا پھر لینس ڈاؤن برج پر تفریح کے لئے جاتے ہیں۔
·      سکھر اور روہڑی کو دریائے سندھ ایک دوسرے سے جدا کرتا ہے۔
·      سکھر اور روہڑی کے درمیان زمینی رابطہ قائم کرنے اور دونوں شہروں کو ایک دوسرے سے ملانے کے لئے 1888ء میں برٹش گورنمنٹ نے لینس ڈائون پل تعمیر کرایا تھا ۔
·      لینس ڈائون پل دنیا کے چند خوبصورت پلوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ پل آج بھی فن تعمیر کا شاہکار کہلاتا ہے۔
·      1962ء میں سابق صدر ایوب خان نے ایک ریلوے پل تعمیر کروایا تھا جو’’ایوب برج ‘‘کے نام سے موسوم ہے۔
·      شہر سے 10 کلو میٹر دور جنوب میں، قدیم تخت گاہ اروڑ کے کھنڈرات ہیں یہی وہ جگہ ہے جسے محمد بن قاسم نے فتح کیا تھا اور وہاں کا مندر منہدم کروا کر ایک مسجد تعمیر کرائی تھی جس کے آثار آج بھی موجود ہیں۔
·      دوسرے شہروں سے آنے والےسیاح اروڑ سمیت دیگر قدیمی علاقوں کی سیر و تفریح کو لازمی سمجھتے ہیں اور روہڑی ، سکھرکے لوگ بھی اپنے مہمانوں کو ان مقامات کی سیر کرانا اپنے لئے باعث اعزاز سمجھتے ہیں۔
·      اروڑ میں کالا دیوی کا مندر بھی ہے جو ہندؤں کے لیے متبرک مقام ہے، یہاں  ہر سال میلہ لگتا ہے۔
·      کالا دیوی کا مندر سے متصل ایک مسجد و مدرسہ بھی موجود ہے۔ اس مسجد، مدرسہ و خانقاہ کے بانی فقیر حافظ محمد عارف خلیفہ مجاز حضرت لونگ فقیر تھے اور حضرت لونگ فقیر سندھ کے نامور صوفی بزرگ اور شاعر حضرت شاہ عبدالطیف بھٹائی رحمۃ اللہ کے خلیفہ مجاز تھے۔
·      سات سہیلیوں کا مزار جو کہ ستین جو آستان کے نام سے ملک بھر میں شہرت خاص رکھتا ہے، سات سہیلیوں کے مزار کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ مقام میر ابولقاسم نمکین نے تعمیر کرایا تھا، جو اپنی طرز تعمیر کے سبب انتہائی اہمیت کا حامل ہے، اسی مقام پر میر ابو القاسم اکثر چاندنی راتوں میں شعر وسخن کی محفلیں منعقد کرواتے تھے، اور ان کے انتقال کے بعد انہیں بھی اس کے قریب دفن کیا گیا تھا۔
·      سات سہیلیوں کے مزار کے متعلق یہ داستان بھی مشہور ہے کہ یہاں سات پریاں رہتی تھیں جس کی وجہ سے اس جگہ کو ’’ستین جو آستان‘‘ کہا جاتا ہے۔
اس شہر کی سیر کرتے وقت یہ سیاح کو ماضی کے جھرونکوں میں لے جاتا ہے مگر ذرا آگے بڑھنے پریہ اگلے ہی لمحے جدید شہر کی بھول بھلیوں میں گم کردیتا ہے۔

اس شہر کا دورہ اور یہاں موجود تاریخی مقامات آپ کے دل و دماغ اور روح کو انتہائی فرحت و سکون بخشیں گے۔


Comments

Popular posts from this blog

وطن جي حب

اسان جو وطن (پيارو پاڪستان)

محنت ۾ عظمت