Posts

Showing posts from August, 2019

بے روزگاری

Image
لوگ کہتے ہیں کہ: روزگار کے مواقعوں کو چند شہروں تک محدود رکھنے کے سبب، ملک کے چھوٹے بڑے شہروں اور دیہی علاقوں میں بے روزگاری بڑھی ہے۔ ہمارا اقتصادی، سماجی اور سیاسی نظام بے روزگاری کو پیدا کرنے کا سبب بنا ہے۔ لیکن کیا ہم اپنے نظام تعلیم کو بھول جائیں؟ ستر بہتر سال گزر جانے کے باوجود ہم اپنے لئے ایک بہتر نظام تعلیم وضع اور اختیار کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ موجودہ نظام تعلیم تو انگریزوں نے اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے رائج کیا تھا۔ جو کلرکوں کی فوج تو پیدا کرسکتا ہے، لیکن ملک کو چلانے والے ذہن پیدا نہیں کر سکتا۔ لہٰذا بے روزگاری پر قابو پانے کے لئے ہمیں ایک ایسا بامقصد نظام تعلیم رائج کرنا ہوگا جو ذہنی صلاحیتوں کو اجاگر کر سکے۔ جس کے ذریعے معاشی مفادات حاصل ہو سکیں کیوں کہ موجودہ نظام تعلیم فرد کی معاشی ضروریات کی تکمیل کرنے سے قاصر ہے۔ ہمارے نظام تعلیم کو جدید ضروریات کے مطابق ڈھالنے کی کوششوں پر بھی توجہ دی جانی چاہیے۔ نصاب تعلیم میں نظری تعلیم کے ساتھ ساتھ عملی تعلیم کی گنجائش بھی رکھی جائے خصوصاً ·        ساتویں کلاس سے میٹرک تک، نصاب میں بجلی کے آلات کی مرمت اور د

احساس کمتری

Image
جدید انسانی تحقیق یہ کہتی ہے کہ: ·       ہم اپنے گرد بسنے والوں کو مصنوعی طور پر متاثر کرنے کی ذہنی بیماری میں مبتلا رہتے ہیں۔ ·       جو ہم فطری طور پر ہوتے نہیں، دراصل وہ ثابت کرنے کی کوشش (دھوکہ) کرتے ہیں۔ ·       ہر وقت دوسروں کو متاثر کرنے کے لئے مہنگی برانڈڈ چیزیں خرید کر ایک دوسرے پر حاوی ہونے کی علت میں مبتلا ہیں۔ ·       ہمارا یہی احساس کمتری، ہماری گفتگو، طور اطوار، عادات سے بھی جھلکتا ہے کہ جب آپ دلیل کا جواب دلیل، علم کا اظہار علم کے بجائے زبردستی اپنی سوچ کو یکطرفہ طور پر مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو دراصل آپ اپنے اندر کے خوف کو مٹانے، چھپانے کے احساس کا شکار ہوتے ہیں۔ ·       آپ اچھا کھانا کھانے کی خواہش کو گھر کے پُرسکون ماحول، کسی عام سستے ہوٹل، ڈھابے کے قدرتی ماحول میں بیٹھ کر بھی پورا کر سکتے ہیں لیکن آپ کے اندر موجود کمتری کا احساس یا فالتو پیسے کی فراوانی کا تکبر آپ کو کسی فائیو اسٹار ہوٹل یا اعلیٰ ترین ریسٹورنٹ میں لے جاتا ہے۔ ·       آپ فطرت سے دور اپنی خواہشات کی تکمیل چاہتے ہیں اور دنیا کو اپنے اندر کا خوف، احساس برتری دکھانا چاہتے ہیں۔

قوموں کے عروج اور زوال - حسن نثار

Image
کبوتر کے بارے تو میں نہیں جانتا کہ بلی کو دیکھ کر سچ مچ آنکھیں بند کر کے خود کو محفوظ سمجھنے لگتا ہے یا نہیں لیکن اپنے بارے مجھے سو فیصد یقین ہے کہ ہم لوگ خطرہ دیکھ کر آنکھیں موند لینے میں یکتا ہیں۔ چشم بددور   ·                               آج کل ہم سب ملا کر تقریباً 22کروڑ بنتے ہیں اور قدم قدم پر قیامت اور کہرام کا سا سماں ہے۔ ·                               پینے کے صاف پانی سے لے کر دو وقت کی روٹی روزگار تک خواب سراب ہو چکے تو میں سوچتا ہوں کہ: ·                               یہی 22کروڑ منہ اور پیٹ چند سال بعد جب 32کروڑ ہوں گے تو ہو گا کیا؟ ·                               زندگی کس بھائو بک رہی ہو گی؟ ·                               خریدار کون ہوں گے اور ہر بازار میں کتنے بازار مصر ہوں گے؟ ·                               نیلام گھروں میں کس کس شے کی بولی لگ رہی ہو گی؟     اصل بات یہ کہ: قوموں کے عروج اور زوال کا گمشدہ ’’خلاصہ‘‘ بالآخر مجھے مل گیا ہے جس کے مطابق  کسی بھی قوم کے عروج یا زوال کا قطعاً کوئی تعلق: ·       نہ اس کے مذہب سے ہے۔ ·   

مینگو فیسٹویل ترکی

Image
پاک ترک تعلقات میں مینگو جیسی میٹھاس پائی جاتی ہے:   سفیر پاکستان ·       یہ مینگو فیسٹویل ترکی کے دارالحکومت   انقرہ    میں سفیر پاکستان محمد سائیرس سجاد قاضی   کی رہائش   گاہ پر   گزشتہ سات سالوں سے   بڑی باقاعدگی   سے منعقد   ہوتا چلا آرہا ہے۔ ·       اس فیسٹویل میں لوگ بڑی تعداد میں شرکت   کرکے   پاکستان کے مینگوز سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ·       سفیر نے تمام   مہمانوں کا استقبال فرداً فرداً   کیا۔ ·       اس فیسٹویل میں بڑی تعداد میں سیاستدانوں سے لے کر سرکاری حکام، تاجروں سے لے کر سفارتکاروں تک مختلف طبقہ ہائے فکر کو مدعو کیا گیا۔ ·       سفیر پاکستان کے ریذیڈنٹس کے لان کو   پاکستان کے قومی پرچم کے رنگ کے غباروں سے   سجایا گیا تھا اور لان میں پاکستان سے متعلق   تصاویر   کی نمائش بھی کی گئی تھی۔ ·       تقریب کا افتتاح سفیر پاکستان محمد سائیرس سجاد قاضی، متعدد   ترک اراکین پارلیمنٹ اور مختلف ممالک کے سفیروں نے مشترکہ طور پر کیا۔ -TRT Sindh Digital Readers

بُرسا (Bursa) ترکی

Image
·       استنبول سے 250کلومیٹر دور ایک پہاڑی علاقہ بُرسا (Bursa) ہے۔ ·       اس علاقے میں آبشار کثرت سے پائی جاتی ہیں۔ ·       70فیصد ترکی کی آبادی کو یہاں سے پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ ·       دیگر قدرتی مناظر اور پہاڑ ی سلسلے بھی بکثرت ہیں۔ ·       ایک پہاڑی سے دوسری پہاڑی تک جانے کے لئے کئی چیئر لفٹس لگی ہوئی ہیں۔ ہر پہاڑی پر آنے جانے کا کرایہ تقریباً 10 ڈالر ہے۔ ·       گرم اور ٹھنڈے پانی کے چشمے بھی ہیں۔ بُرسا جانے کے لئے ایک سمندری راستہ ہے جس سے صرف ڈیڑھ گھنٹے میں استنبول سے بُرسا بذریعہ کروز ( CRUSE ) پہنچ سکتے ہیں، یہ کروز ہر دو تین گھنٹے کے بعد آتے جاتے رہتے ہیں۔ دوسرا راستہ بسوں اور گاڑیوں کے ذریعے 3گھنٹے میں پہنچا جا سکتا ہے۔ بُرسا سے پون گھنٹے کی مسافت پر ایک پہاڑی ہے۔ یہ ایک چھوٹا سا گائوں ہے۔ اس کی وجہ شہرت ایک بہت بڑا درخت ہے جس کی عمر 600 سال بتائی جاتی ہے۔ بہت ہی گھنا اور تناور درخت ہے جس کے سائے میں ایک پورا ریسٹورنٹ اور بیٹھنے کے لئے بنچز لگے ہوئے ہیں۔ یہ پوری طرح لوگوں سے بھرا ہوا رہتا ہے، چوٹی سے نیچے بُرسا شہر کا خوبصورت نظارہ دیکھنے

اور پھر ایٹمی حملے کی خبر درست ثابت ہوئی ۔۔۔

Image
·                                        صرف ایک دن بعد پھر نہ وہ ہیروشیما رہا اور نہ وہ جاپان رہا۔ ·                                        ہیروشیما 6 اگست کو آگ کے شعلے میں تبدیل ہو چکا تھا۔ ·                                        امریکہ کا اگلا ہدف ٹوکیو تھا۔ ·                                        اور یوں لاکھوں جانوں کے ضیاع کے بعد ایک نئے جاپان کی شروعات ہوئی۔ دوسری جنگ عظیم میں جس پائلٹ نے ہیروشیما، ناگاساکی پر ’’ فیٹ مین ‘‘ اور ’’ لٹل بوائے ‘‘ نامی ایٹم بم گرائے اسے بریف کیا گیا تھا کہ یہ کتنے مہلک ہیں۔ بتایا گیا تھا کہ بم ڈراپ کرنے کے بعد کتنی رفتار سے بھاگنا ہے، مخصوص عینکیں لگا کر بھی نیچے نہیں دیکھنا لیکن پائلٹ نے ساری ہدایات کو لائٹ ہی لیا ۔ لیکن بعد ازاں خود اعتراف کرتے ہوئے لکھا کہ : ’’ جب میں نے بم ڈراپ کیا تو جہاز بہت بری طرح اوپر کی طرف اچھلا جیسےبہت زیادہ بوجھ سے چھٹکارا مل گیا ہو ‘‘ پائلٹ کہتا ہے کہ : اس جھٹکے کے بعد میں ریڈالرٹ حالت می