انسانی تجربات کا نچوڑ (محاورے اور معاشرے) - حسن نثار
انسانی
تجربات کا نچوڑ
(محاورے
اور معاشرے)
محاورے، ضرب الامثال صدیوں پر محیط
انسانی تجربات کا نچوڑ، خلاصہ اور عطر ہوتے ہیں اور کمال یہ کہ زبان اور اندازِ بیان
جتنا بھی مختلف ہو، بات ایک سی ہی ہوتی ہے
یعنی محاوروں اور ضرب الامثال میں گہری
مماثلت و مشابہت پائی جاتی ہے کیونکہ بنیادی طور پر انسانی فطرت ہی ایک سی ہوتی
ہے۔ وہی محبت، وہی نفرت، ایثار، انتقام، غصہ، لالچ، حسد، خوف یعنی مخصوص جبلّتوں
کے قیدی انسان۔
--------------------------
حسن نثار (روزنامہ جنگ)
--------------------------
’’کم
کھائو پر غم نہ کھائو‘‘
’’کم
کھانا، قرض لیکر کھانے سے بہتر ہے‘‘
لیکن جہاں کشکول کلچر ہی رگوں میں سرایت
کر جائے وہاں تو قرضے ملنے پر بھی بھنگڑے ڈالے جاتے ہیں۔
اے طائرِلاہوتی اس رزق سے موت اچھی جس
رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
لیکن رینگنے والی مخلوق کا پرواز سے کیا
لینا دینا؟
’’جیسی
مائی ویسی جائی ‘‘
بیٹیوں پر مائوں کی تربیت اور صحبت کا
اثر بہت گہرا ہوتا ہے۔اسی لئے بزرگ کہا کرتے تھے کہ رشتہ کرتے وقت لڑکی سے زیادہ
اس کی ماں کو جانچو، پرکھو، دیکھو
’’سپوت
کیلئے نہ جوڑ، کپوت کیلئے نہ چھوڑ‘‘
قابل بیٹا خود سب کچھ بنا لے گا، نالائق
بیٹا جتنا کچھ بھی ہو
اسے برباد کر دے گا۔
’’گنا
لے نہ بھیلی دے ‘‘
کسی سے تھوڑی شے بھی لیں تو اس کے زیادہ
مانگنے پر انکار مشکل ہے۔
’’چھپر
پر تو پھوس نہیں پر ڈیوڑھی میں نقارہ ہے ‘‘
اپنی اوقات اور حیثیت سے بڑھ کر دکھاوے
سے کام لینا
’’درپر
ہے بارات ۔رنگو دلہن کے ہاتھ‘‘
احمقوں کی طرح بغیر کسی مناسب تیاری کے
کسی بڑے کام میں ہاتھ ڈال دینا اور سمجھ نہیں آ رہی کہ کدھر جائیں اور کیا کریں۔
’’چار
دن کی کوتوالی ۔پھر وہی کھرپا اور جالی ‘‘
نظام سقہ کی طرح مختصر سی حکومت اور پھر
وہی سقائی۔
’’دیگ
ہوئی دم، حاضر ہوئے ہم‘‘
موقع پرستوں کا منشور جس کی بہترین مثال
ہمارے سیاست دان ہیں، جو حددرجہ ڈھٹائی سے کھونٹے بدلتے رہتے ہیں۔
’’پہلے
چٹی۔پھر ہٹی۔ پھر کھٹی‘‘
کوئی بھی جینوئین کام راتوں رات منافع
بخش نہیں ہوتا، کامیابی کیلئے شارٹ کٹ نہیں۔
’’بھیڑ
جہاں جائے گی وہیں مونڈ منڈائے گی‘‘
کمزوری ہر جگہ استحصال کا نشانہ بنتی
ہے۔
’’بھوکے
پیٹ بھجن نہ ہووے‘‘
بھوک تو یکسوئی سے عبادت بھی نہیں کرنے
دیتی۔ اسی لئے افلاس سے پناہ مانگی گئی ہے۔
’’لاڈلا
پوت کٹوری میں موت‘‘
ضرورت سے زیادہ لاڈلی اولاد خود بھی
خراب ہوتی ہے۔والدین کو بھی خراب کرتی ہے۔
’’نند
کا نندوئی، گلے لگ لگ روئی‘‘
دور پار کے رشتہ داروں سے جعلی مصنوعی
ہمدردی۔
’’بوڑھی
بھیڑ بھیڑیے سے ٹھٹھا‘‘
کمزور کا زور آور کے سامنے بڑھکیں
مارنا۔
’’ڈوبتا
بھانڈ چلائے۔سب سمجھیں وہ گائے‘‘
بندے کا تعارف اس کے تعاقب میں رہتا ہے
اور کبھی کسی حال میں پیچھا نہیں چھوڑتا۔
’’گٹھڑی
حلال ہے۔ بقچہ حرام ہے‘‘
تھوڑے میں ایمانداری، زیادہ میں بے ایمانی
جو کلاسیکل قسم کے راشیوں کی جانی پہچانی نشانی ہے۔
’’گھوڑا
ملے تو کوڑا بھی ملے‘‘
بڑا کام ہو جائے تو چھوٹا بھی ہو جاتا
ہے
’’پھٹا
دودھ جما نہیں دیکھا‘‘
رشتے میں بال آ جائے تو کبھی نہیں جاتا
’’ڈوم
بجاوے چپنی، ذات بتاوے اپنی‘‘
کسی کی ذات اور اصل نامعلوم ہو تو اس کی
حرکتوں، عادتوں، رویوں پر غور کرو، تمہیں پوچھے بغیر اس کی اصلیت معلوم ہو جائے گی۔
’’نائیوں
کی بارات میں سبھی راجے‘‘
سب ہی ایک جیسے ہوں گے تو ایسے ویسے کام
کون کرے گا۔ اس لئے قدرت نے طبقاتی نظام یقینی بنایا ہے کیونکہ اس کے بغیر انسانی
معاشرہ کا قیام و دوام ہی ممکن نہیں۔ مساوات کا مطلب برابری ہرگز نہیں سوائے اس کے
کہ جہاں تک بنیادی ضروریات کا تعلق ہے، وہ ہر کسی کو مہیا کی جائیں مثلاً روٹی،
کپڑا، مکان، علاج، تعلیم، تفریح، عزت نفس وغیرہ ورنہ مجھ جیسا جاہل کسی جینوئن
عالم کی برابری کیسے کر سکتا ہے۔
’’اناج
کال نہیں، راج کال کا رونا ہے‘‘
بھوک، ننگ، غربت، افلاس، عسرت کسی
معاشرہ میں اس لئے نہیں ہوتی کہ قدرت اس معاشرے پر نامہربان ہے۔ یہ سب اس لئے ہوتا
ہے کہ حکمران نااہل ہوتے ہیں۔
عوام کو سزا اس لئے ملتی ہے کہ وہ ان
نااہلوں کے گریبانوں پر ہاتھ نہیں ڈالتے بلکہ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے معجزوں کے منتظر
رہتے ہیں۔
·
’’سب کتے ہی کانشی گئے تو ہنڈیا کس نے چاٹی؟‘‘
· سب ہی شریف النفس
ہیں تو بدمعاشی کس نے کی؟
· سب ہی ایماندار
تھے تو ملک کنگال اور مقروض کس طرح ہو گیا؟
’’ٹھنڈا
لوہا گرم لوہے کو کاٹتا ہے‘‘
سادہ سی بات ہے۔ کوئی راکٹ سائنس نہیں لیکن
خدا جانے ان کو سمجھ کیوں نہیں آ رہی جو صبح دوپہر شام تین تین شفٹوں میں گرم توے
پر پھدکتے رہتے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ نودولتیوں کی طرح ’’نو اقتداریئے‘‘ بھی
ہوتے ہیں جنہیں نیا نیا اقتدار ملتا ہے اور انہیں سمجھ ہی نہیں آتی کہ اس کا کرنا
کیا ہے۔
یہاں ایک بھولی بسری دلچسپ بات یاد آئی۔
ہمارے لڑکپن میں سدھیر نامی ایک سپرسٹار
ہوتے تھے جن کی وجہ شہرت ایکشن فلمیں تھیں جن کی وجہ سے انہیں ’’جنگجو ہیرو‘‘ کا
عوامی خطاب بھی ملا ہوا تھا۔
کبھی کبھار سدھیر صاحب کو ہیروئن کے
ساتھ کوئی رومانٹک گانا پکچرائز کرانا پڑ جاتا تو ان کے ہاتھ پائوں پھول جاتے
کیونکہ وہ تو لاٹھی، بندوق، تلوار، برچھی، کلہاڑی
چلانے کے عادی تھے
سو انہیں گانا دوگانا بہت اوپرا اوپرا
لگتا جس سے فلم بین بھی محظوظ ہوتے اور کہتے----
’’ہیروئن
بیچاری نہ بندوق ہے نہ لاٹھی، سدھیر صاحب کو سمجھ نہیں آ رہی کہ اسے کدھر سے چلائیں‘‘
---- یعنی کیسے ہینڈل کریں۔
’’جتنا
چھانو، اتنا ہی کرکرا‘‘
یہ محاورہ ہمارے سیاستدانوں پر خوب جچتا
ہے کہ جتنا بھی آزمائو، اتنے ہی ناقص اور نالائق ثابت ہوتے ہیں۔
’’سب
باتیں کھوٹی پہلے دال روٹی‘‘۔
اسی طرح کا ایک اور محاورہ بھی ہے
’’پہلے
پیٹ پوجا پھر کام دوجا‘‘۔
حکومت معیشت پر فوکس کرے ورنہ وہ وقت
دور نہیں جب لوگوں کو چاند بھی روٹی کی طرح گول دکھائی دینے لگے گا
’’بیٹی
سلکھنی۔ دونوں جانب رکھنی‘‘
اچھی بیٹیاں میکے اور سسرال دونوں کو
خوش رکھتی ہیں۔
’’جب
آیا اس دیہہ کا انت.. جیسا گدھا ویسا سنت‘‘
موت سب کو برابر کر دیتی ہے۔مقبرے سونے
کے بھی ہوں، اندر صرف مردے ہی ہوتے ہیں۔
’’دل
کو ہو قرار۔سوجھیں سب تہوار‘‘
بے فکری ہو تو رسوم ورواج بھی اچھے لگتے
ہیں۔ غریب آدمی کیلئے تو عید بھی کسی عذاب سے کم نہیں ہوتی۔
’’ایک
بوٹی انیک کتے‘‘
ایک انار سوبیمار و الی بات ہے جسے یوں
بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ ’’ایک سیٹ کئی امیدوار‘‘
’’چنے
چبالو یا بانسری بجا لو‘‘
ایک ہی وقت میں دو دو کام کرنے سے دونوں
کاموں میں پتلا پن رہ جاتا ہے یا کم از کم کمال نصیب نہیں ہوتا۔
’’جٹی
نے بھگوئی اٹی ۔کراڑ نے ماری بٹی‘‘
بے ایمان جٹی نے سوت بھگو کر اس کا وزن
بڑھایا۔ بنئے نے کم وزن کا باٹ رکھ کر ساری کسر نکال دی یعنی جیسے کو تیسا۔بدقسمتی
سے ہمارا معاشرہ اس محاورے کی زندہ مثال ہے۔
سب کا ہاتھ ایک دوسرے کی جیب میں ہے۔
یہاں
تک کہ
· حکومتیں عوام کو
· عوام حکومتوں کو
· قصائی ڈاکٹر کو
· ڈاکٹر وکیل کو
· وکیل پروفیسر کو
· پروفیسر طلبہ کو
· طلبہ والدین کو
چونا لگا رہے ہیں۔
Comments
Post a Comment