علامہ محمد اقبال


علامہ اقبال
 علامہ محمد اقبال - شاعر مشرق 9 نومبر 1877 کو پنجاب کے ایک قصبے سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے آبائی قصبے میں حاصل کی۔ 1895 ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔ اسی سال آپ اورنٹیل کالج لاہور میں عربی کے پروفیسر مقرر ہوئے ۔ 1905 تک آپ اس عہدے پر فائز رہے۔ اسی سال آپ اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلینڈ تشریف لے گئے ۔ لندن میں آپ نے قانون کی ڈگری حاصل کی ۔ 1908ء میں ایرانی فلسفہ پر تحقیقی کام کی وجہ سے آپ کو میونخ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری ملی ۔یہی وجہ ہے آپ کو ڈاکٹر محمد اقبال بھی کہا جاتا ہے ۔

 علامہ اقبال ہمیشہ سے ایک عظیم شاعر مشہور ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ آپ عظیم شاعر تھے لیکن شاعری آپ کے بہت سے کاموں میں سے ایک تھی۔آپ مشرقی اور مغربی دونوں فلفسوں کے ماہر تھے۔ آپ نے مغرب کے فلسفیانہ نظام کے کچھ نقائص کی طرف اشارہ کیا۔ انہوں نے اپنی زندگی کا بہت بڑا حصہ اسلام کے مطالعہ میں صرف کیا۔ انہوں نے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے لیے بڑے حوصلے سے کام کیا۔

وہ 1926ع میں پنجاب لیجسلیٹو کونسل کے ممبر منتخب ہوئے اور اس عہدے پر 1929 تک رہے۔آپ دوبارہ اس عہدے کے انتخاب میں شریک نہیں ہوئے۔ آپ آل انڈیا مسلم لیگ کی پنجاب برانچ کے صدر منتخب ہوے اور اپنی وفات تک اس کے صدر رہے۔ 1930 میں آپ نے الہ آباد میں آل انڈیا مسلم لیگ کے جلسے کی صدارت کی۔ اسی تاریخی موقعہ پر آپ نے برصغیر میں ایک علیحدہ مسلم ریاست کا یقینی مطالبہ کیا۔ اپنے صدارتی خطبہ میں ڈاکٹر اقبال نے کہا "ہندوستان مختلف انسانی گروہوں کا براعظم ہے جو مختلف نسلوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ مختلف زبانوں پر یقین رکھتے ہیں۔ان کا طرز عمل مشترکہ نسلی احساسات کے تحت کار فرما نہیں ہے۔ یہ تمام طبقے مختلف قومیں ہیں۔ ہندوستان میں یورپی جمہوریت کا اصول نافذالعمل نہیں ہو سکتا جب تک کے مختلف گروہوں کی حیثیت کو تسلیم نہ کیا جائے۔ ہندوستان کے اندر ہی ایک مسلم ہندوستان کا مطالبہ جو مسلمان کر رہے ہیں کسی طرح سے بھی نا جائز نہیں ہے جہاں تک میرا تعلق ہے۔ میں ایک قدم اور آگے جانا چاہتا ہوں میں پنجاب، صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ایک اسلامی ریاست کے تحت متحد دیکھنا چاہتا ہوں۔ مسلمان ایک علیحدہ ریاست چاہتے ہیں کیونکہ وہ ہندو اکثریت سے ڈرتے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ وہ مسلمانوں کو آزادی سے ترقی کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ "اس مطالبے نے ہندو اور انگریزوں کو یکساں دھچکا پہنچایا۔ دونوں نے اس کی مخالفت کی۔

 یہ پہلا موقعہ تھا کہ ہندوستان کی مسلم قوم کے حقوق کا مطالبہ کیا گیا۔ ڈاکٹر اقبال نے اسی پر اکتفا نہیں کیا۔ ان کی تمام کوششیں اب اس مقصد کے اصول کے لئے صرف ہوگئیں۔ مئی1937ء کو ڈاکٹر اقبال نے قائد اعظم محمد علی جناح کو ایک خط لکھا اس خط میں انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل پر تفصیل سے بحث کی۔ آپ نے ایک دفعہ پھر مشورہ دیا کہ صرف ایک علیحدہ اسلامی ریاست کا قیام ہی ان مسائل کو حل کر سکتا ہے اور قائد سے کہا " کیا آپ کے خیال میں ایسے مطالبے کا وقت نہیں آ گیا ہے؟‘‘

21 جون 1937کو آپ نے دوبارہ قائد اعظم کو لکھا "مسلمان صوبوں کی ایک علیحدہ وفاقی حکومت جس کو ان خطوط پر تشکیل دیا جائے جو میں نے تجویز کیے ہیں۔ صرف یہی ایک راستہ ہے جس کے زریعے ہم ایک پُر امن ہندوستان قائم رکھ سکتے ہیں اور مسلمانوں کو غیر مسلموں کی حکمرانی سے بچا سکتے ہیں۔

 اقبال کی ان کوششوں کے نتیجے میں مسلمان خواب سے بیدار ہو گئے۔ انہوں نے ایک نیا ورق پلٹا۔ اب وہ تمام ایک علیحدہ مسلم ریاست چاہتے تھے۔ مسلم لیگ جو پورے ہندوستان کے مسلمانوں کی نمائندگی کرتی تھی اس کا لاہور میں اجلاس ہوا اور 23 مارچ 1940کو اسی نے ایک قرارداد پاس کی جس میں ہندوستان کے لیے ایک علیحدہ ریاست کا مطالبہ کیا۔ یہ قرارداد اب قرارداد پاکستان کہلاتی ہے۔ اس کے بعد مسلمانوں نے پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ انہوں نے پاکستان کے حصول کے لیے دل و جان سے کوشش کی۔ وہ اپنی جدوجہد میں کامیاب ہوئے۔ 14 اگست 1947 کو پاکستان دنیا کے نقشہ پر نمودار ہوا۔ اقبال 1938کو وفات پا گئے اور پاکستان کے حقیقی قیام کو نہ دیکھ سکے، لیکن اس کے قیام میں انہوں نے ایک اہم کردار ادا کیا۔ قائداعظم نے ان کی وفات کے موقع پر ایک پیغام میں ان کے کردار کی یوں تعریف کی۔"میرے لیے وہ ایک دوست، رہنما اور فلاسفر تھے اور ان تاریک لمحات میں جن میں سے مسلم لیگ کو گزرنا پڑا وہ چٹان کی طرح ڈٹے رہے۔"

 ان کا یقین تھا کہ اسلام پر اعتقاد نے ہندوستانی مسلمانوں کو ایک قوم بنا دیا ہے جو ہندوؤں سے جُدا ہے۔ انہیں پختہ یقین تھا کہ متحدہ ہندوستان میں ہندو اکثریت ملک پر حکومت کرے گی، مسلمان آزادی سے ترقی نہیں کر سکتے۔ انہیں اسلام سے محبت تھی اور مکمل طور سے اس کے شیدائی تھے۔ ان کی نثر اور نظم دونوں اس محبت کے آئینہ دار ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ مسلمانوں کو اپنے اعتماد پر سچا رہنے کی نصیحت کی۔

اپنے الہ آباد کے خطبے میں آپ نے فرمایا۔

"میں نے مسلمانوں کی تاریح سے ایک سبق سیکھا ہے۔ تاریح کے مشکل لمحات میں یہ اسلام ہے جس نے مسلمانوں کو بچایا اور نہ کہ مسلمانوں نے اسلام کو بچایا ہے۔ اگر آج تم اسلام پر پُحتہ یقین رکھو تو تم ایک بار پھر مضبوط اور متحد ہو جاؤ گے اور خود کو مکمل تباہی سے بچالو گے۔"






Comments

Popular posts from this blog

اسان جو وطن (پيارو پاڪستان)

وطن جي حب

محنت ۾ عظمت