قائداعظم نے کیا فرمایا
قائداعظم نے
کیا فرمایا
قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کی
بنیاد رکھی۔ 25 دسمبر 1876ء کو کراچی میں پیدا ہوئے،۔ بچپن میں آپ نے
کراچی میں تعلیم حاصل کی ۔ 16 سال کی عمر میں آپ نے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور
اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے انگلینڈ بھیج دئیے گئے۔ ہندوستان واپس آکر پہلے آپ
نے کراچی میں اور پھر بمبئی میں وکالت شروع کی ۔آپ نے اپنے کام میں اعلیٰ کارکردگی
دکھائی۔ یہ آپ کے ارادے کی پختگی اور دانشمندانہ رہنمائی ہی تھی جس نے مسلمانوں کو
انگریز حکومت اور ہندو غلبہ کی دوہری غلامی سے آزادی دلائی۔ برصغیر کے مسلمانوں کی
خدمت کے صلے میں ہم انہیں قائد اعظم یا عظیم رہنما کہتے ہیں۔ آپ کو اپنے ملک اور
اپنے ہم وطنو ں سے بہت ذیادہ محبت تھی۔ آپ انڈین نیشنل کانگرس میں شامل ہوئے ۔
لیکن جلد ہی اسے چھوڑ دیا اور مسلمانوں کے مقصد کو حاصل کرنے لیے مسلم لیگ میں
شامل ہو گئے۔ مسلمانوں کے علیحدہ وطن کے حصول کے لیے ایک طویل اور سخت مہم شروع کی
۔ 1947ء میں وہ کامیاب ہوئے اور نئی وجود میں آنے والی
حکومت کے پہلے گورنر جنرل بنے۔آپ نے پاکستان کی ترقی اور بہتری کے لیے دن رات کام
کیا ۔یہ یقینا بدقسمتی تھی کہ پاکستان کے وجودمیں آنے کے بارہ ماہ بعد قائد اعظم 11 ستمبر 1948
کو وفات پا گئے۔
انہیں ہمیشہ بانی پاکستان کی حیثیت سے یاد
رکھا جائے گا ۔ اگرچہ انہوں نے ہمیں بہت ہی مختصر سے عرصہ کے بعد چھوڑ دیا۔ آپ کی
تقریریں ہماری رہنمائی کے لئے موجود ہیں۔ اگر ہم ان ہدایات کی پیروی کریں جو ان
میں دی ہوئی ہیں، ہم اپنے پیارے پاکستان کی بہتر طریقے پر خدمت کرنے کے قابل ہو
جائیں گے قائداعظم کو پختہ یقین تھا کہ ایک دن مسلمان اپنی مطلوبہ منزل ضرور حاصل
کر لیں گے۔ پاکستان کے وجود میں آنے سے تین سال پہلے 8 مارچ 1944ء
کو علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ضیاء الدین کے ظہرانے میں تقریر کرتے
ہوئے فرمایا:
”پاکستان بھیک مانگ کر یا دعائیں مانگ
کر حاصل نہیں کر سکتے لیکن اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے کام کر کے حاصل کر
سکتے ہو۔ انشااللہ پاکستان آپ کا ہو گا۔ “
ان کے نزدیک سارے پاکستانی برابر تھے۔
ان کا عقیدہ تھا کہ مذہب یا ذات ایک پاکستانی کو دوسرے سے علیحدہ نہیں کر سکتے
اپنی نئی وجود میں آنے والی ریاست کے گورنر جنرل بننے کے کچھ عرصہ بعد انہوں نے
اپنے پر جوش عوام سے کہا۔
”آپ کو اپنے مندروں میں جانے کی آزادی
ہے۔ آپ کو اس ریاست پاکستان میں مسجدوں کی کسی اور جگہ جانے کی آزادی ہے۔ آپ کا
تعلق کسی بھی مذہب یا ذات سے ہو ہم سب شہری ہیں اور ریا ست کے مساوی شہری ہیں۔‘‘
قائداعظم نے بار بار اپنی عوام سے کہا کہ
:
’’جس چیز کی ان کوسب سے ذیادہ ضرور ت ہے
وہ ایک اچھی تعلیم ہے۔‘‘
گجرات ایجوکیشنل کانفرس کی چوتھی نشست
جو 14 اگست 1945ء
کو منعقد ہوئی آپ نے فرمایا:
”تعلیم ہماری قوم کے لیے زندگی اور موت
کا مسئلہ ہے ۔ دنیا اتنی تیزی سے ترقی کر رہی ہے کہ اگر ہم نے خود کو تعلیم نہیں
دی تو ہم نہ صرف پیچھے رہ جائیں گے بلکہ ہمارا نام ونشان مٹ جائے گا ۔“
ان کے نزدیک تعلیم اور کردار سازی ساتھ
ساتھ ہیں۔ آل پاکستان ایجو کیشنل کانفرنس جو 72 نومبر 1947ء
کو کراچی میں منعقد ہوئی اس میں اپنے پیغام میں انہوں نے فرمایا۔
”تعلیم سے مراد صرف نصابی تعلیم ہی نہیں
ہے اور یہ بہت واجبی قسم کی نہیں ہو نی چاہیئے جو ہمیں کرنا ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں
اپنی عوام کو محترک کرنا ہے اور آنے والی نسلو ں کے کردار کی تعمیر کرنا ہے۔“
متعدد بار قائداعظم نے اپنے عوام کو یاد
دلایا کہ پاکستان صرف اسی وقت خوشحال اور مضبوط ہو سکتا ہے اگر عوام ایمان داری
اور بےغرضی سے اس کی خدمت کریں۔ 14
اگست 1948ء کو پاکستان کی پہلی سالگرہ پر انہوں نے فرمایا:
” پاکستان کا قیام ایک حقیقت ہے جس کی
ساری دنیا کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہ طے ہے کہ سال بہ سال جیسے جیسے
آگے بڑھیں گے ہم شان دار کارنامے انجام دیتے جائیں گئے بشرطیکہ ہم اپنی خدمات
ایمان داری، لگن اوربے غرضی سے انجام دیں ۔“
Comments
Post a Comment