نرسنگ


نرسنگ

 نرسنگ کا مطلب ہمدردی اور پیار سے بیماروں زخمیوں نوجوانوں بوڑھوں بے یارو مدد گار لوگوں کی دیکھ بھال اور خیال کرنا ہے۔ یہ بتانا دشوار ہے کہ تاریخ میں نرسنگ سائنٹیفک طریقے سے کب منظم ہوئی لیکن یہ سمجھنا آسان ہے کہ یہ اتنی قدیم ہے جتنی کہ ایک آدمی کے احساسات اپنے بیمار ساتھیوں کے لیے ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ یہ ہمدردی اور محبت کے جذبات ہی ہیں جو ایک آدمی کو کسی بھی پریشانی میں مبتلا دیکھ کر اس کے لیے افسوس کرے اس کی بیماری میں اس کی دیکھ بھال کرے اور اس کے لیے کچھ کرنے کی کوشش کرے تاکہ اس کی تندرستی بحال ہو سکے۔

 اسلام نرسنگ کو بہت اہمیت دیتاہے۔ ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم با قاعدگی سے بیماروں کی عیادت کرتے ان کو آرام پہنچاتے اور پیارے الفاظ میں انہیں تسلی دیتے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے بیمار دشمنوں تک کی خیریت دریافت فرماتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلمانوں کو ان کی مدد کرنے کی تلقین فرماتے جو بیمار یا پریشان ہوتے، میدان جنگ میں تمام مسلمان سپاہی ہمیشہ بیماروں، بوڑھوں اور زخمیوں سے مہربانی سے پیش آتے۔ وہ کبھی بھی دشمنوں کو قتل نہیں کرتے تھے۔ مسلم خواتین میدان جنگ میں بہت سرگرمی سے سپاہیوں کو پانی پلاتیں اور زخمیوں اور بیماروں کی دیکھ بھال کرتیں۔حضرت غفاریہؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جنگ خیبر میں شریک تھیں۔ ایک اچھی نرس تھیں۔ جنگ جیتنے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک نیکلس تحفے میں انہیں پیش کیا۔ اسی دوران آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ایک ہسپتال قائم کیا اور ایک مستند نرس جس کا نام حضرت رشیدہ تھا کے حوالے کیا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا پیغمبر علیہ اسلام کی سب سے چھوٹی اور سب سے پیاری بیٹی حضرت عاصمہ رضی اللہ عنہا، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی انہی میں سے تھیں جدا اس ہسپتال میں مریضوں کی دیکھ بھال اور نرسنگ کرتی تھیں۔

نرسنگ شروع میں ہر دل عزیز نہیں تھی۔ والدین اپنی بیٹیوں کو نرس بننے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ ایسا شاید ایک لڑکی کی کہانی سے ثابت کیا جا سکے جو 1851 میں جدید نرسنگ کی بانی ہوئی اور تاریخ میں دنیا کی عظیم ترین عورتوں میں سے ایک ہے۔ اس کا نام فلورنس نایٹنگیل تھا۔

فلورنس 1820 میں اٹلی کے ایک گاؤں فلورنس میں پیدا ہوئی۔ اس کے والدین دولت مند اور مہذب انگریز تھے اور اس کی شادی ایک شریف خاندان میں کرنے کی امید رکھتے تھے لیکن اس کے خیالات جدا تھے۔

17 سال کی عمر میں اس نے محسوس کیا کہ اس کا مقصد حیات دکھی انسانیت کی خدمت تھا۔ جب اس کی عمر 24 سال کی ہوئی تو اس نے فیصلہ کیا کہ اسے نرس بننا چاہیے۔ اس نے اعلان کیا کہ
"نرسنگ سے زیادہ کوئی معزز کام نہیں ہے"فلورنس نایٹنگیل
اس کے خاندان کو یہ جان کر صد مہ ہوا۔ ہر ایک نے اس کی مخالفت کی لیکن اس نے اپنا ارادہ تبدیل نہیں کیا۔آخر کار سات سال کی جدوجہد کے بعد اس کو ٹریننگ کے لئے کیسر ورتھ انسٹی ٹیوٹ جرمنی میں جانے کی اجازت مل گئی۔

1853ء میں لندن میں عورتوں کے ایک چھوٹے ہسپتال کا انتظام اس کے سپرد کیا گیا۔

1854ء میں جب انگلینڈ اور روس کے درمیان جنگ ہو رہی تھی۔ برطانوی حکومت نے کریمیا جا کر فوجی ہسپتال کا انتظام سنبھالنے کو کہا۔ اس نے کریمیائی جنگ میں اہم کردارادا کیا۔ قوم نے شکریہ کے ساتھ 45000 پونڈ کی رقم پیش کی۔ اُس رقم کے ساتھ اس نے لندن میں نرسوں کی ٹریننگ کے لئے ایک ادارہ قائم کیا۔

اس وقت نرسوں کی ٹریننگ کے لئے ہمارے ملک میں بہت سے ادارے ہیں۔ بہت بڑی تعداد میں اچھے خا ندانوں کی پاکستانی لڑکیاں ان اداروں سے ٹریننگ حاصل کر کے ہسپتالوں، شفا خانوں اور نرسنگ ہوم میں کام کر رہی ہیں۔






Comments

Popular posts from this blog

وطن جي حب

اسان جو وطن (پيارو پاڪستان)

محنت ۾ عظمت