اچھڑو تھر
اچھڑو تھر
نایاب نسل کے
ہرن ، مور اور سریلے گیتوں کی سر زمین ۔
عمر قریشی
اچھڑو تھر زندگی، موت، خوابوں، تمناؤں،
مایوسیوں اور اُمیدوں کی ہار اور جیت کا ایک وسیع میدان ہے ۔ یہاں کے باسیوں کے
پاس جب تک اُمید کا بھرم رہے گا، تب تک یہ سفید صحراء آباد رہے گا۔مقتدر حلقے اگر
یہاں پینے کے پانی کی سہولت، اسپتال اور بچوں کے لیے
تعلیم کا بندوبست کریں، تو ان لوگوں کی زندگی آسان ہو سکتی ہے۔
· یہاں جنگلی حیات
کا ایک پورا جہاں بسا ہواہے، خاص کر تلوُر اور کوکریان بڑی تعداد میں نظر
آتے ہیں، اس کے علاوہ سنگچور، ریگ ماہی، ریگستانی چوہا، مُشک بلی، جنگلی بلی،
لومڑ، کالا اور بھُورا تیتر بھی اس ریگستان کی زندگی کا ایک اہم حصہ ہیں۔
· اچھڑو تھر کا رقبہ
23 ہزار مربع کلومیٹرز پر محیط ہے اور اس کی حدود عمرکوٹ اور ہتھونگو سے شروع ہو
کر سندھ کے پانچ اضلاع سانگھڑ، بینظیر آباد، خیرپور، سکھر اور گھوٹکی سے جا ملتی
ہیں۔ اس طرح گھوٹکی سے آگے پھر پنجاب سے جا ملتی ہیں، جہاں بابا فرید کا چولستان
اس سلسلے کو خوش آمدید کہتا ہے۔
· ایسا لگتا ہے ،جیسے
یہ ریت کے سمندر کی لہریں ہوں۔ یہاں میلوں تک ویرانی پھیلی ہوئی ہے، نہ کوئی سبزہ
ہے اور نہ کوئی انسان نظر آتا ہے۔
· جس طرح لوگوں کے
اپنے نصیب، دکھ اور سُکھ ہوتے ہیں،بالکل اسی طرح درختوں، پرندوں، اور علاقوں کے بھی
اپنے نصیب ہوتے ہیں۔
· تاریخ کی ورق
گردانی کرنے سے پتا چلتا ہے کہ سرسوتی، گھاگھر اور ہاکڑہ کے اس بہاؤ کے کنارے ایک
پورا جہان سا آباد تھا، ہرے بھرے جنگل تھے، گھاٹ تھے، لوگ تھے اور کشتیاں تھیں
،جو اس بہاؤ کے کنارے چلتیں اور ’’ڈھول ویرا‘‘ کے عظیم الشان شہر تک جاتیں، جو
تہذیب وادی ٔسندھ کا ایک اہم حصہ تھا، اس شہر کے آثار موجودہ بھارت کی گجرات ریاست
میں موجود ہیں۔
· دریائے سندھ کے
کناروں پرتقریباً 90 سے 96 انسانی بستیوں کے آثار ملے ہیں، جب کہ ہاکڑہ یا سرسوتی
کے کناروں پر سےتقریباً پانچ سو قدیم بستیوں کے آثار ملے ہیں۔
· عمرکوٹ کے جنوب کی
طرف جو ریت ہے، اُس میں گارے اور چکنی مٹی کا تناسب زیادہ ہوتا ہے، جب وہاں بارش
ہوتی ہے، تو وہ مزید زرخیز ہوجاتی ہے۔ یہاں کی مٹی پانی کو جلدی نیچے بہنے نہیں دیتی
، پودا بآسانی جڑ لگا لیتا ہے اور زرخیزی کی وجہ سے اُس کی نشو و نما تیزی سے ہوتی
ہے۔
· یہاں جنگلی حیات
کا ایک پورا جہاں بسا ہواہے، خاص کر تلوُر اور کوکریان بڑی تعداد میں نظر
آتے ہیں، اس کے علاوہ سنگچور، ریگ ماہی، ریگستانی چوہا، مُشک بلی، جنگلی بلی،
لومڑ، کالا اور بھُورا تیتر بھی اس ریگستان کی زندگی کا ایک اہم حصہ ہیں۔
آپ تھر کے بارے میں تو جانتے ہی ہیں،نایاب
نسل کے ہرن ، مور اور سریلے گیتوں کی سر زمین ۔ لیکن تھر میں ایک علاقہ ایسا بھی
ہے، جہاں مور نہیں ناچتے ، یقیناً آپ کو حیرانی ہو رہی
ہوگی۔آپ جیسے ہی نارو کے قدیم بہاؤ سے گزر کر آگے بڑھتے اور اس جگہ کو خیر باد
کہتے ہیں، تو اس کے بعد ایک چھوٹا شہر ہتھونگو شروع ہو جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ اسی
مذکورہ صحرا کا گیٹ وے ہے جسے’’ اچھڑو تھر‘‘ (سفید تھر) کہا جاتا ہے۔ یہ گیٹ وے ایک
ٹیلے پر بنا ہے۔
یوں سمجھ لیں کہ چولستان اور تھرپارکر
کے بیچ میں جو ریگستان اپنی ایک الگ شناخت سے پھیلا ہوا ہے وہ اچھڑو تھر ہے۔کہتے ہیں
کہ اسی قدیم بہاؤ میں ایک قدیم جھیل پُور چنڈ اب تک موجود ہے۔
1943میں
جب چارلس نیپئر اپنے آئرش سپاہیوں کے ساتھ میر رستم خان تالپور کا پیچھا کرتے
ہوئے یہاں تک آ پہنچے تھے، اُس وقت ان کی کیفیت بیان کرتے ہوئےوہ لکھتے ہیں کہ یہاں
کی ویرانی عجیب و غریب ہے، جب ہم منفرد ریت کے ٹیلوں کے بیچ میں سے گزرے ، تو دیکھا
کہ یہ ٹیلے شمال و جنوب میں سیکڑوں میل تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے ،جیسے یہ
ریت کے سمندر کی لہریں ہوں۔
یہاں میلوں تک ویرانی پھیلی ہوئی ہے، نہ
کوئی سبزہ ہے اور نہ کوئی انسان نظر آتا ہے۔‘‘جس طرح لوگوں کے اپنے نصیب، دکھ اور
سُکھ ہوتے ہیں،بالکل اسی طرح درختوں، پرندوں، اور علاقوں کے بھی اپنے نصیب ہوتے ہیں۔
حُزن و درد کی کیل ہر ایک کے نصیب میں گڑی ہوتی ہے۔ کہیں سطحی تو کہیں گہرائی تک پیوست
ہوتی ہے۔تاریخ کی ورق گردانی کرنے سے پتا چلتا ہے کہ سرسوتی، گھاگھر اور ہاکڑہ کے
اس بہاؤ کے کنارے ایک پورا جہان سا آباد تھا، ہرے بھرے جنگل تھے، گھاٹ تھے، لوگ
تھے اور کشتیاں تھیں ،جو اس بہاؤ کے کنارے چلتیں اور ’’ڈھول ویرا‘‘ کے عظیم الشان
شہر تک جاتیں، جو تہذیب وادی ٔسندھ کا ایک اہم حصہ تھا، اس شہر کے آثار موجودہ
بھارت کی گجرات ریاست میں موجود ہیں۔
ان باتوں کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا
جا سکتا ہے کہ دریائے سندھ کے کناروں پرتقریباً 90 سے 96 انسانی بستیوں کے آثار
ملے ہیں، جب کہ ہاکڑہ یا سرسوتی کے کناروں پر سےتقریباً پانچ سو قدیم بستیوں کے
آثار ملے ہیں،مگراب ، وہ پانی کا بہاؤ جس کے کنارے ایک جہان آباد تھا وہاں ویرانی،
بیچارگی اور بے بسی کے سوا کچھ نہیں بچا۔حد تو یہ ہے کہ وقت کے بے رحم ہاتھوں نے
اس ریگستان سے اور تو سب کچھ چھینا ہی ، مگر اس زمین کی زرخیزی بھی چھین لی۔’’تاریخ
ریگستان‘ ‘کے مصنف رائچند ہریجن نے اس علاقے کے بارے میں لکھا کہ ،
’’یہاں
آبادی کم ہے اس لیے بستیاں (تڑ) ایک دوسرے سے دور دور واقع ہیں۔ یہ خیرپور سے لے
کر جیسلمیر تک پھیلا ہوا ہے، مگر بدقسمتی یہ ہے کہ زمین سفیدی مائل اور کھیتی کے
لائق بھی نہیں ہے۔‘‘
یہ اب تک معلوم نہ ہو سکا کہ ہزاروں
مربع کلومیٹرز کے اس ریگستان سے قدرت نے زرخیزی کیوں چھین لی، کیوں کہ یہاں کی ریت
بالکل سفید ہے، جس میں گارے اور چکنی مٹی کے ذرات بہت کم ہیں۔ زرخیزی نہ ہونے کی
وجہ سے یہاںپودے پھلتے پھولتے نہیں ہیں،چوں کہ اس سفید ریت میں زرخیزی کے ذرات نہیں
ہوتے اس لیے یہ بہت ہلکی اور ہوا میں اُڑتی رہتی ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ اس میں فصلیں
اُگانا اور کھیتی باڑی کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے، بلکہ یوں کہیں کہ ناممکن ہی ہوتا
ہے،
جب کہ عمرکوٹ کے جنوب کی طرف جو ریت ہے،
اُس میں گارے اور چکنی مٹی کا تناسب زیادہ ہوتا ہے، جب وہاں بارش ہوتی ہے، تو وہ
مزید زرخیز ہوجاتی ہے۔ یہاں کی مٹی پانی کو جلدی نیچے بہنے نہیں دیتی ، پودا
بآسانی جڑ لگا لیتا ہے اور زرخیزی کی وجہ سے اُس کی نشو و نما تیزی سے ہوتی ہے۔
آپ اگر ہتھونگو کے شمال میں چلے جائیں،
تو آپ کو ان ریت کے ٹیلوں میں پانی کی چھوٹی چھوٹی جھیلوں کا ایک سلسلہ ملے گا۔
سفید دودھیا ٹیلے اور نیچے نیلے پانی کی جھیلیں۔وہاں ’’کاکاہو‘‘ (کچھ مقامی لوگ
اسے کہکائو کہہ کر بھی پکارتے ہیں) نامی جھیل بھی دیکھنے کو ملے گی۔ ماہی گیروں کی
ایک کشتی اس جھیل کے کنارے موجود رہتی ہے۔وہاں کے مقامی ماہی گیر چھوٹی چھوٹی مچھلیوں
کے جال میں پھنس جانے پر ہی خوش و مطمئن نظر آتے ہیں، کہ چلو اس سے ایک وقت کے
کھانے کا تو انتظام ہو جائے گا۔ایسے ویران اور اُجاڑ مناظر میں اگر تمناؤں اور خواہشوں
کے گھوڑوں کے منہ میں لگام نہ ڈالی جائے ،تو زندگی انتہائی مشکل ہوسکتی ہے۔
ویسے دیکھا جائے تو دنیا میں خوش رہنے
کے لیے اس سے اچھا فلسفہ اور کوئی ہے بھی نہیں۔ پھر چند کلومیٹرز آگے دیگر جھیلیں
بھی نظر آئیںگی ۔ان جھیلوں پر سردیوں میں پرندوں کے ’جھُنڈ کے جھُنڈ آتے ہیں، جیسے
مرغابیاںاور کئی اقسام کے پرندے،ان کی بولیوں سے یہاں کا منظر و سماں کھِل اُٹھتا
ہے۔
ضرور آپ بھی یہ سوچیں گے کہ صحراء میں
اتنی جھیلیں کیسے، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ علاقہ دوسرے علاقوں کی نسبت سطح سمندر سے
نیچے ہے۔ یہ ہی بنیادی سبب ہے کہ نارا کینال کے بائیں طرف جو دو نہریں ’’کاکاہو‘
‘اور’ ’کلانکر‘ ‘نکلتی تھیں، اُن کے بہنے سے ایک تو نارا کینال کی ریت صاف ہو جاتی
ہے اور ساتھ میں اس پانی سے جھیلوں کا ایک سلسلہ سا بن گیا، جو اب بھی پانی کے زیادہ
آنے سے جی اُٹھتا ہے۔ان جھیلوں کے کنارے آس پاس رہنے والے بچے کھیلتے ہوئے نظر
آتے ہیں، وہاں ’’کنڈی‘‘ کے اِکا ،دُکا اداس درخت بھی ہیں۔جب آپ یہاں سے تھوڑا
اور، تقریباً پندرہ کلو میٹر آگے بڑھیں گے، توایک علاقے ’’تڑ بانڈو ‘‘کے قریب،
نمک کی جھیلیں بھی ہیں۔ ان جھیلوں سے کچھ لوگ تیز پانی سے تہوں کی صورت میں جمے سفید
چمکتے نمک کو اکٹھا کرتےہیں، جہاں اس نمک کی بوریاں تیار کی جا رہی تھیں تا کہ ان
کو دیگر شہروں میں بھیجا جا سکے۔
کتنی عجیب بات ہے ناں کہ نمک کے بنا
ہمارا گزارا نہیں ہے، ہمارے کھانے بے ذائقہ رہتے ہیں، لیکن جو لوگ اتنی محنت کرکے
اس نمک کو ہم تک پہنچاتے ہیں، ہم ان کے لیے کچھ بھی نہیں کر پاتے۔ ان کی آمدنی
اتنی کم ہوتی ہے کہ سننے والا ان کی بے بسی پر حیران ہی رہ جائے۔
ہتھو نگو سے تقریباً 70کلو میٹر کے
فاصلے پر ’ ’تڑ راناہو‘‘واقع ہے۔وہاں پہنچنے کے راستے میں، ’’تڑ رابلاہو‘‘ بھی
آتا ہے ،جہاں ٹھاکر برادری کے سو سے زائد گھرآباد ہیں۔وہاں کے مقامی افرادکا
کہنا ہے کہ جب یہاں بارش ہو جاتی ہے،تو مکئی اور گوار وغیرہ کی فصل ہو جاتی ہے۔
مال کی گھاس بھی اُگ آتی ہے، اگر بارش نہ ہو، توروکھی سوکھی کھا کر گزارا ہو ہی
جاتا ہے۔اچھڑو تھر میں زندگی ایسی ہی گزرتی ہے۔
یہاں جنگلی حیات کا ایک پورا جہاں بسا
ہواہے، خاص کر تلوُر اور کوکریان بڑی تعداد میں نظر
آتے ہیں، اس کے علاوہ سنگچور، ریگ ماہی، ریگستانی چوہا، مُشک بلی، جنگلی بلی،
لومڑ، کالا اور بھُورا تیتر بھی اس ریگستان کی زندگی کا ایک اہم حصہ ہیں۔
یہاں’’کنڈی‘ ‘کا درخت تقریباً ہر جگہ
نظر آئے گا کہتے ہیں کہ یہ درخت اس بے رنگ اور بانجھ زمین کا کئی صدیوں سے دوست
بنا ہوا ہے۔’’راناہو‘‘ میں کنڈی کے درخت اور اونٹ جا بجا نظر آتے ہیں،اس کے مشرق
میں ’’ڈیھیوں‘‘ کا سلسلہ ہے۔
ڈیھیوں ریت کے اُن ٹیلوں کو کہا جاتا
ہے، جن ٹیلوں نے کبھی وفا نہیں سیکھی۔ یہ بھی آکاس بیل کی طرح ہوتی ہیں، جن کی
کوئی جڑ نہیں ہوتی۔ یہ ریت کے ٹیلے بس سفر میں رہتے ہیں۔ جہاں ہوا لے جائے دھیرے
دھیرے ہوا کے سہارے چلتے جائیں گے۔مقامی لوگ کہتے ہیں کہ ان پر چڑھنا مشکل ہے اور
ان پر کوئی کونپل بھی نہیں پھوٹتی۔ ریگستان کے باسی کے لیے یہ چلنے والے ٹیلے نعمت
ہوتے ہیں، کیوں کہ اس ٹیلے کی نچلی سطح پر اگر طریقہ سے ریت کھودی جائے، تو پینے
کا پانی وافر مقدار میں مل جاتا ہے۔
Comments
Post a Comment