مومل رانو - مومل اور رانو میندھرو - رفیع عباسی



مومل جی ماڑی ، کا ذکر لوک کہانیوں میں بھی موجود ہے ۔ مومل رانو کی داستان کے  مطابق امر کوٹ کا فرما ں روا ، راجہ ہمیر سومرو، اپنے خاص مصاحب، رانو مہندرا سنگھ، سوڈھو، سین ہارو دھرم چنی اور ڈانرو بھتیانی کے ہم راہ امر کوٹ کے  دورافتادہ جنگلات میں شکار کھیلا کرتا تھا اور جانوروں کا پیچھا کرتے ہوئے اکثر یہ لوگ اپنی سلطنت کی حدود سے آگے بھی نکل جایا کرتے تھے۔


ایک دن جب یہ لوگ  شکار کھیلنے میں مصروف تھے کہ اچانک ایک شخص ان کے سامنے آگیا، جو انتہائی  پریشان حال لگ رہا تھا۔ ان لوگوں نے مذکورہ شخص کو کھانا اور پانی دینے کے  بعد اپنے ساتھ شامل کرلیا لیکن اسے اپنے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ 

رانو میندھرو نامی یہ نوجوان راجہ ہمیر سومرو کو بہت پسند آیا اور وہ اسے اپنے  خاص مصاحبین کی صف میں شامل کرکے ساتھ رکھنے لگا۔ رانو نے انہیں بتایا کہ وہ  کشمیر کے قریب واقع ایک ریاست کا شہزادہ ہے اور وہ یہاں مومل نامی حسینہ کی  شہرت سن کر اس کی محبت حاصل کرنے کے لیے قسمت آزمائی کے لیے آیا ہے۔

دل چسپ  بات یہ ہے کہ راجہ ہمیر بھی شہزادی سے شادی کا امیدوار رہ چکا تھا لیکن شہزادی  مومل کی شرائط پوری کرنے میں ناکام رہا تھا۔ اس نے نوجوان رانو پر یہ بات ظاہر نہیں کی۔

ان چاروں نے اسے یقین دلایا کہ اس کی مومل تک پہنچنے کے لیے نہ صرف بھرپور رہنمائی بلکہ ہر ممکن مدد کی جائے گی۔

مومل نامی دوشیزہ جس علاقے میں رہتی تھی وہ امر کوٹ کے شمال مشرق میں  ’’لودھروا‘‘ نامی قصبے میں واقع تھا، وہاں ایک پراسرار محل میں جس کا نام ’’کک  محل‘‘ تھا، وہ اپنی سات کنیزوں کے ہم راہ رہتی تھی۔ کک محل کو مومل نے اس  انداز سے تعمیر کروایا تھا کہ وہ ایک جادوئی محل لگتا تھا۔

بعض روایات کے  مطابق، مومل نامی حسین دوشیزہ، گوجر قوم کے حکمراں، "راجہ نند" کی بیٹی تھی،  راجہ نند لودھروا کے علاقے کا حاکم تھا۔ شہزادی مومل بے انتہا حسین و جمیل دوشیزہ  تھی ۔

جب وہ جوان ہوئی تو اس کے حسن کی شہرت دور دور تک پھیل گئی اور اس سے شادی کے لیے بڑے بڑے راجہ، مہاراجاؤں کے پیغامات آنے لگے، جن میں بعض کا شمار انتہائی طاقت ور حکمرانوں میں ہوتا تھا اور شہزادی کے انکار کی صورت میں ان کی ناراضگی، راجہ نند کی سلطنت کی تباہی و بربادی کا باعث بھی بن سکتی تھی۔ 

اس کا حل شہزادی مومل نے یہ نکالا کہ ایک خطرناک پہاڑی چوٹی پر ایک پراسرار محل تعمیر کروایا، جس میں وہ اپنی سات بہنوں کے ساتھ رہتی تھی۔ ان میں سے ’’سومل  ‘‘اپنی ذہانت اور ’’نااٹر‘‘ اپنی پراسرار پلاننگ کرنےمیں مشہور تھی۔

دونوں بہنوں نے اپنی ذہانت اور پلاننگ کو بروئے کار لا کر شہزادی مومل کے محل کو ایک عجوبے کی شکل دے دی۔

محل کے دروازے کے دونوں اطراف دو خون خوار شیر کھڑے کئے  گئے، جوکہ بڑی مہارت سے بنائے گئے تھے اور شعبدہ بازی کا انتہائی اعلیٰ نمونہ تھے۔ دونوں شیر اپنی ہیبتناک صورت کے ساتھ بالکل اصلی نظر آتے تھے۔

ان کے  آگے ایک بہت بڑا دریا موجزن تھا، جسے پار کرنا ناممکن نظر آتا تھا لیکن یہ  بھی حقیقی نہیں تھا، صرف فریب نظر تھا، لیکن دیکھنے والوں پرحقیقت کا گمان  ہوتا تھا۔

دوسری طرف، محل کے اندر صحن میں، سات انتہائی دیدہ زیب اور نفیس  پلنگ رکھے ہوئے تھے، جن پر قیمتی کپڑے کی چادریں بچھی ہوئی تھیں۔ ساتوں پلنگ ایک جیسے نظر آتے تھے اور ان میں ذرا سا بھی فرق نظر نہیں آتا تھا لیکن ان  میں سے چھ پلنگ کچے سوت سے بُنے ہوئے تھے اور ان کے نیچے گہرے گڑھے کھودے گئے تھے۔ جب کہ ان میں سے ایک پلنگ مضبوط نیواڑ سے بنایا گیا تھا۔ان چھ پلنگوں پر جیسے ہی کوئی شخص بیٹھتا تھا، اس کے بوجھ سے پلنگ ٹوٹ جاتا تھا اور اس پر بیٹھنے والا شخص گڑھے میں گر جاتا تھا۔

مومل شہزادی نے اعلان کروا دیا کہ جو شخص میری تمام شرائط پوری کرنے کے بعد میرے محل میں داخل ہوکر، یہاں رکھے ہوئے اصل پلنگ پر آکر بیٹھ جائے گا تومیں اس سے شادی کرلوں گی۔

بہت سی ریاستوں کے حکمراں، شہزادے اور امراء قسمت آزمائی کے لئے آئے، لیکن کچھ تو پہاڑوں کی ہیبت سے خوب زدہ ہوکر واپس چلے گئے، کچھ دریا کی بپھرتی ہوئی موجوں اور خوف ناک شیروں کو دیکھ کر بھاگ گئے۔ 

چند بہادر افراد ان تمام آزمائشوں سے گزر کر محل کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوئے لیکن جیسے ہی شہزادی کی اگلی شرط کے مطابق کچے سوت سے بنے ہوئے پلنگوں پر بیٹھے، وہ ان کے نیچے بنائے ہوئے گہرے گڑھوں میں جا گرے، گڑھوں سے نکلنے کے بعد انہیں ناکام و نامراد واپس لوٹنا پڑا ۔

امرکوٹ کا حکمراں راجہ ہمیر سومرو  بھی قسمت آزمائی کے لئے گیا، لیکن دریا کی موجیں اور دھاڑتے ہوئے شیروں کو دیکھ کر وہاں سے واپس لوٹ گیا۔

آخر میں کشمیری شہزادہ، رانو میندھرو جو بہادری میں اپنی مثال آپ تھا، راجہ  ہمیر اور اس کے ساتھیوں کی رہنمائی میں مقدر آزمانے کے لیے نکلا۔ خوف ناک پہاڑی بلندیوں کو سر کرنے کے بعد جب وہ دریا کے کنارے پہنچا تو اس کی شوریدہ  سر لہروں کو دیکھ کر ذرا ٹھٹھکا لیکن اس نے دریا کی گہرائی کا اندازہ کرنے کے  لیے اپنا نیزہ لہروں پر مارا تو اسے معلوم ہوا کہ یہ اصلی دریا نہیں ہے، صرف  شعبدہ بازی کا کمال ہے۔

وہ دریا پار کرکے شیروں کے قریب پہنچا لیکن ان کی جانب سے کوئی نقل و حرکت نہ پا کر وہ نہایت اطمینان کے ساتھ محل میں داخل ہوگیا۔ 

وہاں اسے ایک ہی جیسے سات پلنگ نظر آئے۔ اس نے ہر پلنگ پر بیٹھنے سے پہلے اپنا نیزہ مارکر انہیں جانچا اور اس طرح وہ اصل پلنگ پر جاکر بیٹھ گیا۔

شہزادی تک اس  کی کامیابی کی اطلاع پہنچی تو اس نے رانو کو اپنے حضور طلب کیا۔ رانو کو  دیکھتے ہی وہ اس کی خوب صورتی کے سحر میں گرفتار ہوگئی اور اپنی شرط کے مطابق  اس سے شادی کرلی۔

راجہ ہمیر سومرو کے مخبروں نے اسے شہزادہ رانو اور مومل شہزادی کی شادی کی خبر پہنچائی تو وہ رقابت کی آگ میں جلنے لگا۔ رانو جب کک محل سے واپس امرکوٹ آیا  تو راجہ نے اسے اپنے دربار میں طلب کیا اور اسے حکم دیا کہ وہ آئندہ مومل سے  ملنے کے لیے نہ جائے۔ راجہ نے اس کی نگرانی کے لیے پہریدار تعینات کردیئے۔ 

رانو، راجہ کی طرف سے لگائی جانے والی پابندیوں سے بہت پریشان تھا اور مومل کی  یاد میں تڑپتا رہا جب کہ مومل کی بھی یہی کیفیت تھی۔ ایک روز شام کے وقت اپنا کام نمٹا کر وہ اپنے کمرے میں آیا اور جب اندھیرا گہرا ہوگیا تو پہریداروں کی نگاہوں سے بچ کر پچھلے دروازے سے نکل کر وہ اپنے تیز رفتار اونٹ پر بیٹھ کر لودھروا کی جانب روانہ ہوا۔

وہاں ساری رات وہ کک محل میں مومل کے ساتھ رہا۔ جب شب کا آخری پہر باقی رہ گیا تو وہ مومل کو الوداع کہہ کر امر کوٹ واپس آگیا۔ 

لودھروا اور امرکوٹ کے درمیان طویل فاصلہ تھا، لیکن رانو کا اب روز کا معمول  بن گیا کہ وہ پہریداروں کی نگاہوں سے بچ کر عقبی راستے سے باہر نکلتا اور طویل سفر طے کرتا ہوا مومل کے پاس پہنچ جاتا اور صبح امرکوٹ واپس آکر راجہ ہمیر کے دربار میں امور سلطنت نمٹایا کرتا تھا۔

ایک روز راجہ کے جاسوسوں نے اسے لودھروا  کی جانب جاتے ہوئے دیکھ لیا، انہوں نے راجہ ہمیر کو اطلاع دی۔

راجہ ہمیر، رانو کے گھر پر آکر اس کی واپسی کا انتظار کرتا رہا۔ صبح جیسے ہی رانو ، مومل سے مل کر واپس آیا، راجہ کے حکم پر اسے گرفتار کرکے نظر بند کردیا گیا۔ کچھ دنوں تک رانو قید میں رہا ، پھر راجہ کو رانو کے ساتھ اپنی دوستی کے خوش گوار لمحات  یاد آئے جس سے اس کا دل پسیجنے لگا اور اس نے رانو کی رہائی کا حکم دیا ۔ 

رہائی کے بعد اس نے رانو سے وعدہ لیا کہ وہ آئندہ مومل سے ملاقات کے لیے کک محل نہیں جائے گا۔

رانو نے کچھ عرصے تک تو راجہ کے ساتھ کیے گئے وعدے کی پاسداری کی لیکن مومل کی محبت نے پھر اسے لودھروا جانے پر مجبور کردیا اور وہ اس سے چوری چھپے دوبارہ ملنے لگا۔

ایک مرتبہ رانو معینہ وقت پر شہزادی مومل سے ملنے کے لیے کک محل نہیں پہنچ سکا، جس کی وجہ سے مومل اس کے فراق میں تڑپتی رہی۔ مومل نے اپنے محبوب کا بہت انتظار کیا، پھر اپنے دل کو تسلی دینے کی خاطر، اپنی بہن سومل کو مردانہ لباس پہنا کر اپنے پاس رانو کی جگہ لٹا لیا۔

رات کے کسی پہر فرصت ملتے ہی رانو وہاں  پہنچ گیا، تو اس نے دیکھا کہ مومل کے ساتھ کوئی اجنبی شخص سو رہا ہے۔

اندھیرے کی وجہ سے اسے سومل کا چہرہ نظر نہیں آیا۔ اس نے بجائے مومل کو جگا کر اس بارے میں باز پرس کرنے کے، اس کی طرف سے بدگمان ہوکر وہاں سے چلا گیا لیکن جاتے وقت  اپنی چھڑی مومل کے سرہانے چھوڑ گیا۔

صبح جب مومل نیند سے بیدار ہوئی تو اس نے  اپنے سرہانے رانو کی چھڑی رکھی ہوئی دیکھی، وہ سمجھ گئی کہ رانو اس سے ملنے آیا تھا لیکن سومل کو اس کے ساتھ محو خواب دیکھ کر بدگمانی میں مبتلا ہوکر واپس چلا گیا لیکن اپنی آمد کی نشانی کے طور پر اپنی چھڑی چھوڑ گیا ہے۔ 

رانو اس کے بعد کئی روز تک اس سے ملنے نہیں آیا اور مومل اس کے فراق میں تڑپتی رہی۔ آخر رانو کی محبت سے مجبور ہوکر مومل نے مردانہ بھیس بدلا اور ایک اونٹ پر سوار ہوکر امر کو ٹ پہنچ گئی۔ وہاں ایک سرائے میں ٹھہر کر وہ کئی دنوں تک رانو کو تلاش کرتی رہی۔

ایک جگہ وہ اسے نظر آگیا، مومل نے اسے آواز دی،  مسلسل گریہ زاری کی وجہ سے مومل کی آواز خاصی بھرّائی ہوئی تھی ، رانو اس کی آواز نہیں پہچان سکا لیکن وہ اسے کوئی اجنبی مرد سمجھ کر اس کے قریب آیا۔ 
قریب آنے پر جب مومل نے اسے اپنا چہرہ دکھایا تو وہ نفرت سے منہ موڑ کر واپس  جانے لگا۔ مومل اس کے قدموں سے لپٹ گئی اور اسے یقین دلانے کی کوشش کی کہ جو کچھ اس نے کک محل میں دیکھا وہ محض اس کی غلط فہمی تھی، اس کے ساتھ اس کی بہن سومل سورہی تھی۔

مومل نے رانو سے اپنی اس غلطی کی معافی بھی مانگی لیکن رانو،  مومل سے اس حد تک بدگمان ہوچکا تھا کہ رانو کی آہ و زاری دیکھ کر بھی اس کا دل نہیں پسیجا۔ مومل کی رانو کو منانے کی ہر کوشش رائیگاں ہوگئی تو اس نے دل برداشتہ ہوکر قریب ہی آگ کے جلتے ہوئے الاؤ میں چھلانگ لگا کر خودکشی کرلی۔ 

مومل کےمرنے کے بعد رانو کو اس کی محبت کی سچائی کا یقین آیا، تو اس نے بھی اسی الاؤ میں کود کر اپنی جان دے دی۔



تاریخ کے صفحات میں مومل اور رانو کی  محبت کی داستان ہمیشہ کے لیے امر ہوگئی ۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی نے ’’ شاہ جو رسالو‘‘ میں اس کا تذکرہ شاعرانہ انداز میں کیا ہے جس کی وجہ سے مومل رانو کی کہانی سندھ کے بچے بچے کی زبان پر عام ہے۔

قدیم آثار کے ماہرین کے مطابق کک  محل لودھروا کے قریب گھوٹکی کے گاؤں میں پہاڑی ٹیلوں پر واقع تھا، مومل رانو  کے مرنے کے بعد اس کا نام ’’مومل رانو کی ماڑی ‘‘ پڑ گیا جو آج مومل کی ماڑی کے نام سے معر وف ہے۔

سکھر کی سیر اور قدیم آثار سے دل چسپی رکھنے والے شائقین گھوٹکی سے گیارہ کلومیٹر کا سفر طے کر کے ’’مومل کا محل یا ماڑی‘‘  دیکھنے ضرور جاتے ہیں جس کے صرف کھنڈرات باقی رہ گئے باقی آثار صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں۔


Comments

Popular posts from this blog

اسان جو وطن (پيارو پاڪستان)

وطن جي حب

محنت ۾ عظمت