پاکستان کی معیشت کیسے بہتر ہو سکتی ہے؟



برطانوی تھنک ٹینک کے مشورے
منصور آفاق

دراصل کل مجھے ڈاکٹر خورشید احمد (سی بی ای) جو ’’ریشنل ایکولٹی برطانیہ‘‘ کے سابق وائس چیئرمین بھی ہیں، اپنے ساتھ ایک برطانوی تھنک ٹینک کے اجلاس میں لے گئے تھے۔

وہاں پر موجود لوگوں نے مجھ سے پاکستان کے متعلق کئی سوالات کیے۔ آخر میں میں نے بھی پوچھ لیا کہ:

’’آپ کےخیال میں پاکستان کی معیشت کیسے بہتر ہو سکتی ہے‘‘۔

اُن کے جواب کا خلاصہ یہ تھا کہ:


پاکستان کا بنیادی مسئلہ کرپشن ہے، جیسے ہی کرپشن کا جن بوتل میں بند ہوگا معیشت بہتری کی طرف رواں دواں ہوجائے گی، کرپشن کے خاتمے کے لئے پاکستان کو ایک نئی وزارت کی ضرورت ہے۔ جس کا کام لوگوں کے اثاثوں اور آمدن کا حساب رکھنا ہو۔ جو ہر فیملی کی مالی حیثیت کی مکمل جانچ پڑتال کرے، اُس کی ایک فائل ہو جس میں اُس کے اثاثے اور آمدنی کے ذرائع درج ہوں۔ جو لوگ اپنے اثاثوں کے ذرائع آمدنی ثابت نہ کرسکیں، اُن کے اثاثے بھی قومیا لئے جائیں اور بلیک منی رکھنے کے جرم کی سزا بھی دی جائے۔

اِس کام کا آغاز سرکاری ملازموں سے کیا جائے، سرکاری افسروں، جنرلوں، ججوں اور سیاست دانوں کے اثاثے چیک کئے جائیں، اُس میں یہ بھی دیکھا جائے کہ اُس آمدنی پر ماضی میں ٹیکس ادا کیا گیا یا نہیں۔
جتنے لوگوں کے بیرون ملک اثاثے ہیں اگر وہ اُس کے ذرائع نہیں بتا سکتے یعنی منی لانڈرنگ کر کے سرمایہ باہر منتقل کیا ہے اور ٹیکس نہیں ادا کیا، اُنہیں قانون کے مطابق سزا دی جائے۔

اگر نئی وزارت قائم کرنا مشکل ہے تو وزارت داخلہ کے تحت ایک نیا محکمہ بھی قائم کیا جا سکتا ہے۔ ایف آئی اے یا نیب کو بھی اتنی وسعت دی جا سکتی ہے۔

اِس سے فوری طور پر دو فائدے ہونگے۔

پہلا فائدہ:
پہلا فائدہ تو یہ ہو گا کہ پورے ملک میں جتنے بزنسز ہیں وہ سب ریکارڈ پر آجائیں گے۔ اُن کی تفصیل حکومت کے پاس آجائےگی، ٹیکس وصول کرنا آسان ہوجائے گا۔

دوسرا فائدہ:
دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ تقریباً پچاس فیصد لوگوں کے اثاثوں اور آمدن میں تفاوت کا امکان جس سے ایک بڑی رقم حکومت کو حاصل ہوگی یعنی تمام بلیک منی یک دم حکومت کے پاس آتے ہی وائٹ منی میں تبدیل ہوجائے گی۔

اُس تھنک ٹینک کے ایک ممبر نے اِس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ

·      پاکستان کے سوات اور ریکوڈک میں کم ازکم دو ہزار بلین ڈالر کا سونا موجود ہے، پاکستان اُس طرف کوئی توجہ کیوں نہیں دیتا۔
·      بڑھتی ہوئی مہنگائی کا آسان سا حل: حکومت صرف کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں پر کنٹرول کرے۔ اُن پر سبسڈی دے۔ اُس کے علاوہ جتنی چیزیں ہیں اُن پر ٹیکس ڈبل کردے۔
·      سگریٹ پر ٹیکس برطانیہ کی طرح ایک ہزار گنا کردے۔
·      سرکاری کالجوں اور یونیورسٹیوں کو بہتر کر کے پرائیویٹ اسکولوں اور کالجوں پر ٹیکس کی شرح کئی گنا کردے۔
·      جرائم پر سزائوں کے ساتھ جرمانے کی رقم میں سو گنا اضافہ کرے بلکہ کئی جرائم کی سزائیں ختم کر کے اتنا زیادہ جرمانہ رکھ دے جو قابلِ برداشت نہ ہو۔
·      پورے ملک کی سڑکوں پر کیمرے نصب کر دے ایک تو ٹریفک نظام درست ہوجائے گا، دوسرا ہر ماہ اربوں روپے جرمانے سے جمع ہونگے۔
·      بائیس گریڈ تک تمام آفیسرز سے سرکاری گاڑیاں واپس لے لے، آفیسرز یا تو اپنی گاڑیاں استعمال کریں یا لوکل ٹرانسپورٹ۔
·      تمام افسروں سے سرکاری گھر واپس لے لئے جائیں یا تو وہ اپنے گھروں میں رہیں یا کرائے کے گھروں میں۔
·      برطانیہ میں حکومت نہ تو کسی سرکاری افسر کو گھر فراہم کرتی ہے اور نہ گاڑی۔


Source: Daily Jang May 17, 2019

Comments

Popular posts from this blog

وطن جي حب

اسان جو وطن (پيارو پاڪستان)

محنت ۾ عظمت