تندرستی ہزار نعمت ہے


تندرستی ہزار نعمت ہے

ایک دن کاشف اپنی والدہ کے ساتھ خریداری کے لئے گیا۔ جیسا کہ وہ مٹھائی کا بہت شوقین تھا۔ اس نے اپنی والدہ سے کچھ مٹھائی خر یدنے کے لئے کہا۔

والدہ:        نہیں کاشف آپ کو کوئی مٹھائی اس دُکان سے نہیں خریدنی چاہیئے۔ دیکھو ان پر مکھیاں بیٹھی ہوئی ہیں۔ اگر آپ وہ مٹھائی کھائیں گے تو آپ بیمار ہو جائیں گے۔

کاشف:     ٹھیک ہے امی جان۔ آئیں سڑک کے دوسرے طر ف چلیں۔یہاں ایک اور دُکان ہے۔کیا ہم یہاں سے کچھ خریدیں گے؟

والدہ :       ہاں۔ یہ ایک صاف دُکان ہے۔ یہاں پر مکھیاں نہیں ہیں۔ اوہ نہیں، میں نے ابھی ایک آدمی کو سڑک کے کنارے جھاڑو دیتے ہو ئے دیکھا ہے۔ یہاں بہت دھول ہے۔ آپ کو ایسی چیز نہیں کھانی چاہیئے جس پر دھول ہو۔ مکھیاں اور دھول سینکڑوں جراثیم لئے پھرتی ہیں اور ہماری صحت کے دشمن ہیں۔

کاشف :    برائے مہربانی امی جان مجھے ان جراثیم کے بارے میں بتائیے۔

والدہ:        غور سے سنیے۔ یہ جراثیم بہت چھوٹے جاندار ہوتے ہیں۔انہیں ظاہری آنکھ سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ آپ انہیں صرف خورد بین سے دیکھ سکتے ہیں۔

کاشف :    مکھیاں انہیں کیسے لے جاتی ہیں۔

والدہ :       آپ نے مکھیوں کو گندی چیزوں پر بیٹھے دیکھا ہو گا۔ ان چیزوں پر جراثیم ہوتے ہیں اور یہ مکھیوں کی ٹانگوں سے چمٹ جاتے ہیں۔ جب مکھیاں ہماری خوراک پر بیٹھتی ہیں تو جراثیم اس سے چمٹ جاتے ہیں۔ اور جب ہم یہ خوراک کھاتے ہیں تو جراثیم ہمارے جسموں میں داخل ہو جاتے ہیں اور ہمیں بیمار کر دیتے ہیں۔

کاشف:     میں سمجھ گیا۔ اس لئے ہمیں کوئی ایسی مٹھائی اور خوراک نہیں کھانی چاہیئے جو منا سب طریقے سے ڈھکی ہوئی نہ ہو۔

والدہ:        دھول میں جراثیم ہو تے ہیں۔ ہم انہیں دیکھ نہیں سکتے لیکن ہوا ان سے بھاری ہو تی ہے۔ اس لئے آپ کو یاد رکھنا چاہیئے کہ آپ ایسی خوراک نہ کھائیں اگر اس پر مکھیاں ہوں یا اگر اس پر دھول ہو۔

کاشف:     ٹھیک ہے۔ میں انُ دُکانوں سے کوئی چیز نہیں خریدوں گا جہاں چیزیں مناسب طریقے سے ڈھکی ہوئی نہ ہوں۔

والدہ:        بہت سی بیماریاں جراثیم سے پیدا ہوتی ہیں مثلاً ٹائفائیڈ اور دوسری بہت سی بیماریوں کے جراثیم مکھیاں پھیلاتی ہیں۔

کاشف:     لیکن امی جان میں نے اپنی کتاب میں پڑھا ہے کہ ملیریا کا سبب ایک قسم کا مچھر ہے نہ کے مکھیاں۔

والدہ:        آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ انسان کو ملیریا مچھر کے کاٹنے سے ہوتا ہے۔

کاشف:     مچھر کہاں رہتے ہیں۔

والدہ:        وہ ٹھہرے ہوئے پانی میں رہتے ہیں۔بعض لوگ مچھروں کو مار نے کے لئے مٹی کا تیل اور ڈی، ڈی ۔ ٹی استعمال کرتے ہیں اس سے پہلے کہ وہ بڑے ہو کر اُڑ جائیں اور تندرست آدمیوں کو کاٹیں۔

کاشف:     اگر پاکستان میں ہر ایک مچھروں کے خلاف جنگ میں حصہ لے تو ہم ملیریا سے جلد ہی نجات حاصل کرلیں گے۔

والدہ:        ہا ں میرے بیٹے، میرا بھی یہی خیال ہے۔ ہمیں اپنے آپ کو تندرست رکھنے کی کوشش کر نی چا ہیئے۔ جیسا کہ تندرستی ہزار نعمت ہے۔ اگر ہم تندرست نہیں ہوںگے تو سخت محنت، مطالعہ اور کچھ سیکھنے کے قابل نہیں ہوں گے۔






Comments

Popular posts from this blog

اسان جو وطن (پيارو پاڪستان)

وطن جي حب

محنت ۾ عظمت