ڈالر کا مصنوعی بحران - حسن نثار



سنسنی خیز ترین خبر یہ ہے کہ دو اہم اداروں نے یہ رپورٹ فائنل کر لی ہے کہ ڈالرز والا کھلواڑ کس نے بلکہ کس کس نے کیا اور ان کے سابقہ اور موجودہ حکمرانوں کے ساتھ کیسے تعلقات ہیں۔ خبر کی تفصیل میں کیا جانا، چند سرخیوں پر غور فرما لیں تو ساری واردات بہ آسانی سمجھ میں آ جائے گی۔

·      ’’ڈالر کا مصنوعی بحران پیدا کرنے میں  51 ٹاپ مافیاز، 72 منی ایکس چینجرز،  18 بڑے بک میکر اور  9لینڈ مافیاز ملوث ہیں‘‘
·      ’’پروپیگنڈا کرنے والے 380 سوشل میڈیا اکائونٹس کا بھی سراغ لگا لیا گیا ہے‘‘
·      ’’ان تمام سوشل میڈیا اکائونٹس کا تعلق تین سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہے‘‘
·      ’’روپے کی قدر گرانے میں ملوث بڑے کاروباری گروپوں کے سابقہ اور موجودہ حکمرانوں کے ساتھ تعلقات ہیں اور ان میں سابق بینکرز بھی شامل ہیں‘‘
·      ’’بک میکرز کے بھارتی بک میکرز سے بھی رابطے ہیں‘‘

·      ’’سرمایہ کاری میں بھی بھارتی مافیا شامل نظر آتا ہے‘‘


جب کوئی خاندان یا کوئی چند خاندان تسلسل کے ساتھ اقتدار میں رہیں گے تو سسٹم میں ان کی جڑیں شیطان کی آنت کی طرح پھیلتی اور گہری سے گہری ہوتی چلی جائیں گی، جو ہمارے ہاں ہوا ہے۔

مہذب، ترقی یافتہ اور مضبوط دنیا پاگل نہیں جو اپنے بہترین لوگوں کو بھی اقتدار سے مسلسل چمٹے رہنے کی اجازت نہیں دیتی اور اک مخصوص و محدود مدت کے بعد بڑے سے بڑے پھنے خان کو بھی سسٹم سے نکال باہر پھینکتی ہے کہ بصورت دیگر افراد یا خاندان سسٹم سے بھی زیادہ طاقتور ہو جاتے ہیں اور ریاست عملاً ان کے پاس یرغمال اور گروی پڑ جاتی ہے۔
صرف بیورو کریسی ہی نہیں، ہر شعبۂ زندگی میں ان کے طفیلیے، پروردہ اور بینی فشریز نہ صرف طاقتور ہوتے چلے جاتے ہیں بلکہ ان کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔

مافیاز تو مافیاز، ٹریڈ یونینز اور مختلف قسم کی ایسوسی ایشنز بھی ان کے اشاروں پر ناچتی ہیں اور یہ جب چاہیں سسٹم کو ڈسٹرب یا جیم (JAM) کر سکتے ہیں تو ڈالر کو تگنی کا ناچ نچانا، اوپر نیچے کرنا کون سا مشکل کام ہے؟ سٹاک ایکسچینج کے ساتھ چھیڑ خانیاں یا مہنگائی کو مصنوعی بڑھاوا دینا بھی کوئی راکٹ سائنس نہیں۔

معاملہ بیورو کریسی سے شروع ہو کر بیورو کریسی پر ہی نہیں ٹوٹتا... اس تہہ در تہہ انتہائی پیچیدہ کھیل میں بہت سے پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں جو اپنے اور اپنے سیاسی آقائوں کے لئے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔
یہ جو خبر میں مافیاز، منی ایکس چینجرز، بک میکروں، بڑے کاروباری اداروں، قبضہ گروپوں وغیرہ کا ذکر ہے تو یہ ’’سیدھے سادے‘‘ بیورو کریٹس سے کئی گنا زیادہ بڑے سٹیک ہولڈرز ہوتے ہیں۔

بیورو کریٹ کتنا ہی بڑا فن کار کیوں نہ ہو، اس نے بالآخر ریٹائر ہو جانا ہوتا ہے جبکہ مافیاز اور دیگر وارداتیوں نے نسل در نسل چلنا ہوتا ہے۔کل کلاں ٹیکنالوجی کچھ کر دے تو کر دے ورنہ دنیا میں پیسہ دراصل ہوتا ہی ’’پولیٹکل پیسہ‘‘ ہے۔
Source: Daily Jang


Comments

Popular posts from this blog

وطن جي حب

اسان جو وطن (پيارو پاڪستان)

محنت ۾ عظمت