ایک اچھے شہری کی ذمہ داریاں


ایک اچھے شہری کی ذمہ داریاں

اس سے پہلے کہ ہم اس پر بحث کر یں کہ ایک اچھے شہری کے ذمہ سوسائٹی کا کو ن سا فر ض ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا چاہیئے کہ سو سائٹی اس کے لئے کیا کرتی ہے۔ ہزاروں سال پہلے انسان جانوروں کی طرح غاروں میں رہتے تھے ان میں سے ہر ایک تن تنہا اور اپنے لئے زندہ رہتا تھا۔ وہ اپنی خوراک کیلئے شکار کرتے تھے اور سخت زندگی گزار تے تھے۔اب ہم انہیں وحشی کہتے ہیں۔

انہوں نے مل جل کر زیادہ محفوظ اور بہتر زندگی بسر کرنا سیکھا۔ سب سے پہلے وہ خاندان اور پھر قبیلوں میں رہنے لگے۔ بعد میں وہ دریاؤں کے کناروں کے ساتھ ساتھ آباد ہو گئے۔ جہاں وقت کے ساتھ ساتھ چھوٹے اور بڑے قصبے وجود میں آئے۔ زندگی محفوظ اور آسان ہو گئی۔ کچھ لوگوں نے زمین کاشت کرنا شروع کی ۔کچھ جولا ہے بن گئے کچھ معمار بنے کچھ موچی بنے اور کچھ سپاہی۔ وہ سب ایک دوسرے کیلئے کام کرتے تھے۔

جیسے جیسے سوسائٹیاں بڑی ہوتی گئیں اور لوگ زیادہ مہذب ہوتے گئے۔ بہت سے پیشے اور کام ترقی کرتے گئے۔ زندگی کو زیادہ محفوظ اور پرُمسرت رکھنے کیلئے قوانین بنائے گئے۔

آج ہمارے پاس ڈاکڑ، اساتذہ، انجینئر، آرٹسٹ، مصنف، پولیس مین اور دوسرے کارکنوں کا جم غفیر ہے جو سب اپنے ساتھی انسانوں کے لئے کچھ نہ کچھ کر تے ہیں۔

اگر ہم صرف چند منٹ کے لئے غور کریں کہ کتنی بہت سی چیزیں اور خدمات ہم ایک دن میں حا صل کر تے ہیں۔ ہم محسوس کریں گے ہم سوسائٹی کے کتنے ممنون ہیں۔ دودھ والا ہمارے لئے دودھ لاتا ہے اور ہم سب کے فائدے کے لئے مویشی پالتا ہے۔ نان بائی روٹی پکاتا ہے ۔ چھاپہ خانہ والا ہما ری کتابیں چھاپتا ہے۔ ڈرائیور بس چلاتا ہے جس میں ہم اسکول یا اپنے کام کرنے کی جگہ جاتے ہیں۔ کارکن اور انجینئر ملیں چلاتے ہیں جو ہمارے پہننے کے لئے کپڑا بناتی ہیں۔

استاد اسکول میں شاگرد کو پڑھاتا ہے۔ ڈاکڑ بیماروں کا علاج کرتا ہے اور دوکاندار روزمرہ کے استعمال کی اشیا ء فروخت کرتا ہے۔ پبلک پارک شہروں کی بہبود کے لئے برقرار رکھے جاتے ہیں۔ٹریفک پولیس ٹریفک کو قابو میں رکھتی ہے تا کہ ہم کسی حادثہ کے خوف کے بغیر سفر کر سکیں۔

ہم صرف ٹونٹی گھماتے ہیں اور تازہ پانی بہنے لگتا ہے۔ ہم بٹن دباتے ہیں اور روشنی آجاتی ہے۔گلیوں کی صفائی اور کوڑا کرکٹ کا ہٹانا صرف ایک منظم سوسائٹی ہی میں ممکن ہے۔ ٹیلی فون اور ریل گاڑیاں تمام متحدہ کوششوں کے فائدے ہیں۔ پھر ریڈیو اور ٹی وی دونوں ہم کو تفریح اور ہدایات دیتے ہیں۔

ان تمام تکالیف کے صلے میں ہمیں سوسائٹی کو بھی کچھ لوٹانا چاہیے۔ اگر ایک دودھ والا دودھ میں پانی ملاتا ہے تو سوسایٹی کے دوسرے افراد سے اپنے لیے صحیح سلوک کی کیسے توقع کر سکتا ہے۔ اگر ایک دوکاندار کم تولتا ہے یا غیر معیاری اشیا فروخت کرتا ہے تو اسے بھی دوسروں سے اسی قسم کے سلوک کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اگر ہم ٹریفک کے قوانین کو نظر انداز کردیں تو نہ صرف دوسروں کی زندگیوں بلکہ خود اپنی جانوں کو بھی خطرے میں ڈال دیں گے۔

 ہر شہری کا یہ فرض ہے کہ وہ ان مسائل کو سمجھے جو اس کے ملک کو در پیش ہیں اسے انہیں حل کرنے کے لیے گورنمنٹ کے ساتھ ضرور تعاون کرنا چاہیے۔ پاکستان کے سب سے بڑے مسائل غربت، جہالت اور آبادی میں اضافہ ہیں۔ معاشرے کی ترقی اور اسے بہتر بنانے کے لیے یہ مسئلے صحیح تعلیم اور تربیت کے ذریعے ہی حل ہو سکتے ہیں۔

 حکومت پاکستان نے ان مسائل کو حل کرنے کے لیے بہت سے پروگرام شروع کیے ہیں۔ مثال کے طور پر دیہاتی ترقی کا پروگرام تعلیم اور تعلیم بالغاں، صحت، صفائی سماجی بہبود اور بہبود آبادی، تعلیمی مراکز، تمام ملک میں قائم کئے گئے ہیں۔

 بہت سی بھلائیاں جن سے ہم فائدہ اُٹھاتے ہیں ہماری سوسائٹی اور ملک کی جانب سے مہیا کی ہوئی ہیں لہٰذا ہمارا یہ فرض ہے کہ پاکستان کے محب اور وفادار ہوں۔ ہمیں اپنے تما م ٹیکس فوری، مکمل طور پر اور ایمانداری سے ادا کرنے چاہیں تا کہ ہم سماجی فائدوں سے مسلسل لطف اندوز ہو سکیں۔

اسلام ہم پر بحیثیت شہری فرائض کی انجام دہی پر بہت زور دیتا ہے۔ مقدس پیغمبرﷺ نے ایک دفعہ فرمایا اللہ تعالیٰ نے پڑوسیوں کے حقوق پر اتنا زور دیا ہے کہ کہیں انہیں ہماری جائداد کی وراثت کا حق نہ مل جائے۔

مختصراً اس وقت تک ہم اچھے مسلمان نہیں ہو سکتے جب تک اچھے اور فرض شناس شہری نہ بن جائیں۔





Comments

Popular posts from this blog

وطن جي حب

اسان جو وطن (پيارو پاڪستان)

محنت ۾ عظمت