تمہارے معاشرے میں - مظہر بر لاس



·      کہیں کوئی غریب اس کا حصہ نہ بن جائے۔
·      تمہارے کرتوت دیکھ کر دنیا شرماتی ہے۔
·      پھر کہتے ہو یہ مسلمان معاشرہ ہے۔
·      قبروں سے لاشیں نکال کر مردہ جسموں کے پائے پکائے جائیں۔
·      ایسا تو بنی اسرائیل کے عہد میں بھی نہیں ہوا تھا۔
·      قبرستانوں پر ہائوسنگ سوسائٹیاں بنا دیتے ہو۔
·      تھانوں میں ظلم بولتا ہے، جیلوں میں غریب تڑپتے ہیں، اسپتالوں میں علاج میسر نہیں، تم ذخیرہ اندوزی کرتے ہو، تم ناپ تول میں ڈنڈی مارتے ہو، تم حرام جانوروں کا گوشت کھلا دیتے ہو، تم دھوکہ دیتے ہو، تمہارا تاجر لوٹ مار کرتا ہے، ناجائز منافع خوری کرتا ہے ۔۔۔۔
·      اور پھر آخری عشرہ مدینے میں گزار کر جنت کا ٹکٹ خریدنے کی کوشش کرتا ہے۔
  


تمہارے معاشرے میں
مجبوراً رمضان المبارک میں کچھ افطاریوں پر جانا پڑتا ہے۔ دل بہت کوستا ہے، یہ کیسی افطاریاں ہیں کہ افطار کرنے والوں کی فہرستیں بنتی ہیں، ان فہرستوں میں اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہیں کوئی غریب اس کا حصہ نہ بن جائے۔ یہ افطاریاں بھی دراصل میل ملاپ کا بہانہ ہیں، افطار کروانے والوں کو ثواب سے کوئی غرض نہیں اور افطار کرنے والوں میں روزہ داروں کی اکثریت نہیں ہوتی۔

تمہارے معاشرے میں
اگر خوف خدا ہوتا تو لوگوں کے آنگنوں میں بھوک ہوتی؟ معاشرے میں لوگ ایسے نہ ترستے۔ ٹرسٹوں کے نام پر دولت اکٹھی کرنے والے معاشرے میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کے گھروں میں فاقے ہیں، کبھی کسی نے سوچا کہ اسلام ہمسائے کے حقوق کیا بتاتا ہے، محلات کے گرد غریب بستیوں میں رہنے والے بھی تو ہمسائے ہی ہیں۔

تمہارے معاشرے میں
تمہارے معاشرے میں سو بچوں کا قاتل پیدا ہوتا ہے، تمہارے معاشرے کے جنونی سیریل کلنگ کرتے ہیں، بچے بچیاں غیر محفوظ، عورتیں غیر محفوظ، غریب ہونا جرم، یہ ہے تمہارا معاشرہ، تم خود کو مسلمان معاشرہ کہتے ہو؟ تمہارے کرتوت دیکھ کر دنیا شرماتی ہے، تم دو دن شور کرتے ہو پھر ظلم کو برداشت کر لیتے ہو، کیا کسی مغربی ملک میں ایسا ہوتا ہے؟

تمہارے معاشرے میں
بعض جرم ایسے ہوئے کہ دنیا میں اس سے پہلے ہوئے ہی نہیں تھے، ایسا تو بنی اسرائیل کے عہد میں بھی نہیں ہوا تھا کہ خواتین کی لاشوں کو قبروں سے نکال کر ان کی بےحرمتی کی جاتی مگر یہ سب کچھ تمہارے معاشرے میں ہوگیا۔ اب تو تمہارا معاشرہ درندگی کی فلمیں بناتا ہے، فلمیں بنا کر بلیک میل کرتا ہے،

دنیا میں کہیں ایسا ہوا تھا کہ قبروں سے لاشیں نکال کر مردہ جسموں کے پائے پکائے جائیں، آپ کے ہاں تو یہ بھی ہوگیا۔ ریپ کی دردناک کہانیاں تو خبروں کا معمول بن گئی ہیں۔ پھر کہتے ہو یہ مسلمان معاشرہ ہے، کبھی سوچا کہ روز قیامت کیا چہرہ دکھائو گے؟

تمہارے معاشرے میں
کس قدر جھوٹ ہے، جہاں سچ کا ملنا محال ہوجائے وہاں رحمتیں کیسے نازل ہوں۔ تم تو قبرستانوں پر ہائوسنگ سوسائٹیاں بنا دیتے ہو، تم یتیموں کی زمینوں پر قبضے کرتے ہو، تمہارے ہاں بیوائوں کا جینا مشکل ہے، تم غیبت کرتے ہو، ظلم کرتے ہو، چوری کرتے ہو، ڈاکے ڈالتے ہو، افلاس کی بستیاں آباد کرتے ہو، تمہارے ہاں زکوٰۃ بھی ٹھیک طرح سے تقسیم نہیں ہوتی، تم تعلیم کے نام پر تجارت کرتے ہو، تم مسیحائی کے نام پر دکھ بانٹتے ہو، تم ملاوٹ کرتے ہو، رشوت لیتے ہو، اختیارات کا ناجائز استعمال تمہارے ہاں عام ہے، تمہاری افسر شاہی دولت کی ہوس میں اندھی ہو چکی ہے، تمہارے تھانوں میں ظلم بولتا ہے، تمہاری جیلوں میں غریب تڑپتے ہیں، تمہارے اسپتالوں میں علاج میسر نہیں، تم ذخیرہ اندوزی کرتے ہو، تم ناپ تول میں ڈنڈی مارتے ہو، تم حرام جانوروں کا گوشت کھلا دیتے ہو، تم دھوکہ دیتے ہو، تمہارا تاجر لوٹ مار کرتا ہے، ناجائز منافع خوری کرتا ہے اور پھر ....

آخری عشرہ مدینے میں گزار کر جنت کا ٹکٹ خریدنے کی کوشش کرتا ہے۔

کیا اس تاجر کو یاد نہیں رہتا کہ مدینے والے نے فرمایا تھا ’’ذخیرہ اندوزی جرم ہے، کم تولنا جرم ہے، ناجائز منافع خوری حلال نہیں‘‘ کیا تمہارے تاجر کو یاد نہیں رہتا کہ مدینے والےﷺ نے فرمایا تھا ’’جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں‘‘۔

لوگو! دولت کی پوجا چھوڑ دو، حرام حلال میں تمیز کرو، تمہارے معاشرے میں جو کچھ ہورہا ہے وہ اسی لئے ہے کہ تم نے حرام حلال میں تمیز چھوڑ دی ہے، جہاں حرام کو حلال سمجھ لیا جائے وہاں ظلم کی بستیاں آباد ہوجاتی ہیں۔

بقول جون ایلیا؎
ہم نے کئے گناہ تو دوزخ ملی ہمیں
دوزخ کا کیا گناہ کہ دوزخ کو ہم ملے

Source: Daily Jang
24 مئی ، 2019


Comments

Popular posts from this blog

اسان جو وطن (پيارو پاڪستان)

وطن جي حب

محنت ۾ عظمت