شاھ عبداللطیف بھٹائی


شاھ عبداللطیف بھٹائی

اسلام امن کا مذہب ہے۔ ﷲ تعالیٰ نے پیغمبر صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کو انسانیت کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ آپ نے اپنی مہربانی اچھی عادت اور شریفانہ طریقوں سے لوگوں کے دل جیت لیے۔آپ صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بہت سے پیروکاروں نے آپ کی اعلیٰ مثالوں کی ہر دور اور تمام دُنیا میں پیروی کی۔ انہی بزرگوں کی کوششوں کی وجہ سے اسلام دُور دراز تک پھیلا۔ یہ مقدس لوگ غیر مُسلموں کو دائیرہ اسلام میں لانے میں بہت زیادہ کامیاب رہے۔

ہمارے مُلک کے ہر حصے میں ایسے بزرگ لوگوں کے مزار ہیں۔
·      لاہور میں حضرت داتا گنج بخش اور حضرت میاں میر صاحب کے مزار مبارک ہیں۔
·      پاک پتن شریف میں حضرت بابا فرید نے قیام کیا اور وہیں انتقال فرمایا۔
·      ملتان میں حضرت غوث بہاؤالحق کا مزار شریف ہے۔

پشاور، کوئٹہ اور ایسے بے شُمار دُوسرے قصبوں اور شہروں میں ایسے ہی اللہ کے نیک بندوں کے مزارات ہیں۔

سندھ میں دو عظیم بُزرگ ہستیوں شاہ عبداللطیف اور قلندر لال شہباز کے مزارات ہیں۔

عظیم بُزرگ شاہ عبداللطیف جنھیں اُن کے عقیدتمند پیار سے لعل لطیف کہتے ہیں 1689 میں ہالا حویلی نامی ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوے۔ اُس وقت نیک مُغل بادشاہ اورنگزیب کی حُکومت تھی۔

شاہ عبداللطیف کے اباواجداد تیمور لنگ کے زمانے میں ہجرت کر کے سندھ آئے تھے۔ یہ لوگ ہرات سے آئے تھے۔اُس وقت سندھ مُسلم ثقافت کا مرکز تھا اور شاہ عبداللطیف کے آباواجداد کو اتنا پسند آیا کہ اُنھوں نے اس کو اپنا وطن بنانے کا فیصلہ کیا۔ لیکن کسی کو اُن کے نام تک یاد نہ رہتے اگر کافی صدیوں بعد اُن کی نسل مبارک میں سید حبیب شاھ کو اللہ نے شاہ عبداللطیف نامی بیٹا نہ دیا ہوتا۔

شاھ لطیف بڑی حساس فطرت کے مالک تھے۔ آپ کا دل جلد ہی اللہ کی محبت سے شرسار ہو گیا۔ قُدرتی مناظر نے اُن کے احساسات کو شدت سے اُبھارا۔ ابھی آپ بچے ہی تھے کہ آپ نے شاعری شُروع کر دی۔ آپ کو علم حاصل کر نے کا شوق تھا اور آپ بڑے ہو کر عربی اور فارسی کے بڑے عالم بنے۔جب آپ بیس سال کے ہوے تو آپ کی شادی ایک اچھی اور نیک خاتوں سے ہوئی۔ آپ نے اپنی بیوی کے ساتھ حسن سلوک اچھا رکھا اور کافی سال گھر پر رہے۔ جلد ہی آپ کا دل زیادہ سے زیادہ مذہب اور عبادت کی طرف راغب ہوتا گیا اور آپ کو گھریلوُ زندگی میں بے چینی محسوس ہونے لگی۔

جب آپ کے والد کا انتقال ہوا تو آپ نے گھر چھوڑ دیا اپنے گاؤں سے کُچھ فاصلے پر ایک ٹیلے پر رہنے چلے گئے۔ سندھی زبان میں ریت کے ٹیلے کو بھٹ کہا جاتا ھے۔ اسی حقیقت کی وجہ سے کہ آپ نے ساری زندگی اسی ٹیلے پر گزاری اس لیے آپ بھٹ والے بُزرگ کہلائے۔ آج تک پورے ملک میں آپ شاھ عبدالطیف بھٹائی یا شاھ لطیف ٹیلے والے کہ نام سے مشہور ہیں۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آپ کی اللہ کی محبت میں اضافہ ہوتا گیا حتیٰ کہ آپ کا زیادہ وقت عبادت اور گہری سوچ میں گُزرتا۔آپ کی رُوحانی طاقت میں عبادت اور ریاضت سے اتنی مضبوط تر ہو گئی کہ لوگ آپ کی طرف راغب ہونا شروع ہو گئے۔جو کوئی آپ سے ملنے آتا آپ سے متاثر ہوتا اور آپ کے مریدوں میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اُس ٹیلے کے پاس جہاں لال لطیف رھتے تھے وہیں اک قدرتی جھیل تھی۔آپ کی شاعرانہ فطرت نے اس پُر سکوُں ماحول کو پسند کیا۔آپ اپنا زیادہ وقت اسی جھیل کے کنارے گزارتے۔ آپ جتنا وقت وہاں گزارتے اللہ کی عبادت کرتے اور اپنی شاعری میں اللہ کی تعریف بیان کرتے۔

شاھ لطیف نہ صرف بزرگ اور شاعر تھے بلکہ ایک موسیقار بھی تھے۔آپ کو موسیقی میں بڑا لُطف ملتا۔ اس فن میں آپ کی مہارت نے آپ کو اپنے وقت کی موسیقی میں بہت سی اصطلاحات کرنے میں مدد دی۔ہر ایک دوسری چیز کی طرح آپ موسیقی اور آلات موسیقی میں سادگی پسند تھے۔ آپ اس خیال سے متفق نہ تھے کے موسیقی کو مشکل ہونا چاہیے۔ اس لیے آپ نے اسے آسان بنا دیا۔آپ نے ایک موسیقی کا آلہ بھی ایجاد کیا جس کا نام تمبورہ رکھا۔ یہ آلہ عربوں کے آلے کی طرح تھا لکین اس میں تاریں مختلف تھیں۔ آج تک پورے سندھ میں تمبورہ مشہور ہے۔جوان اور بُوڑھے اسے بجاتے ہیں اور اس کی سادہ مگر متغیر دُھنوں پر لعل لطیف کا کلام گاتے ہیں۔

لعل لطیف 1752 تک اسی ٹیلے پر رہے اور وہیں آپ کا انتقال ہوا اور آپ کو وہیں دفنایا گیا۔ سندھ کے مشہور بادشاہ غُلام شاہ کلہوڑو جو آپ کا اس حد تک عقیدت مند تھا کے اُس نے آپ کی قبر پر مزار بنوا دیا۔ لطیف کے مریدوں نے آپ کے کلام کو جمع کر کے اسے اک رسالے کی شکل میں چھپوا یا جس کا نام شاھ لطیف کا رسالہ رکھا۔آپ عوامی شاعر تھے اس لیے آپ نے آسان الفاظ میں شاعری کی۔آپ کی نظموں کی اتنی اہمیت ہے کہ اس کا مُحتلف زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ لطیف کی شاعری کی ایک اہم خصوصیت اس کی سادگی کے ساتھ ساتھ اس کی متحیر دُھن ھے۔ جب آپ اسے سنیں تو اگر آپ کو اس شاعری کا ایک لفظ بھی سمجھ نہ آئے پھر بھی آپ اس کی دُھن پر رقص کریں گے۔

ہر سال 14 صفر کی تاریخ کو آپ کا عُرس آپ کے مزار پر منایا جاتا ہے، صفر اسلامی سال کا دوسرا مہینہ ہوتا ھے۔ کئی ہزار لوگ جمع ہو کر شاھ لطیف کی نظموں کو تمبوُرہ پر بجا کر عبادت کرتے ہیں۔بہت سے عالم حضرات وہ اخبارات پڑھتے ھیں جو لعل لطیف کی زندگی اور شاعری کے متعلق بتاتے ہیں۔حال ہی میں ایک لائبریری ایک مسافر خانہ اور ایک عجاعب گھر بنایا گیا ہے۔ مزار بھی دوبارہ بنا کر اہم شاہراہ سے ملا دیا گیا ہے۔ بہت کلومیٹر دور سے ھی اس کا سفید گئنبد لعل لطیف کی طہارت اور عظمت نمایاں کرتا ہے۔

لطیف کا پیغام محبت کا پیغام ہے۔ آپ کا عقیدہ تھا کے لوگ آپس میں بھائی بند بن کر اور مساوات سے رہیں اور اللہ کو خوش کرنے کے لیے اپنے اعمال اچھے کرنے چاہیں۔ آپ کے خیال کے مطابق یہی مقصد زندگی ہونا چاہیے۔











Comments

Popular posts from this blog

اسان جو وطن (پيارو پاڪستان)

وطن جي حب

محنت ۾ عظمت