مومل جی ماڑی - رفیع عباسی



مومل جی ماڑی کے قدیم آثار ، گھوٹکی کے قصبے سے  11 کلومیٹر مشرق کی طرف جروار  روڈ پر واقع ہیں۔ یہ ماڑی  15 ایکڑ رقبے پر پھیلی ہوئی ہے اور پہاڑی تودوں پر  واقع ہے۔ ان تودوں کے 12 ایکڑ رقبے پر کچی پکی اینٹوں کے مکانات اور جھگیوں پر  مشتمل گاؤں ہے جب کہ جنوب مغربی سمت میں بقیہ  3 ایکڑ رقبہ غیر آباد ہے۔ اس  غیر آباد حصے سے متعلق دیو مالائی قصے، کہانیاں مشہور ہیں ۔

اس کے بارے میں  قیاس کیا جاتا ہے کہ یہاں کسی دور میں مومل کا محل واقع تھا۔ محل کو سندھی  زبان میں ’’ماڑی ‘‘ کہا جاتا ہے، اس لیے یہ محل مومل کی ماڑی کہلاتا ہے۔

سندھی  مؤرخین کے مطابق مومل نام کا یہ قلعہ نما محل 590ء میں راجہ رائے سہاسی ثانی کے دور حکومت میں تعمیر ہوا تھا۔


راجہ رائے سہاسی کو تعمیراتی کاموں سے بہت دل  چسپی تھی اور اس نے چکنی مٹی سے مومل جی ماڑی کے علاوہ چھ دوسرے محل تعمیر  کرائے تھے، جن کے نام:

1.  مومل جی ماڑی
2.  اچھ
3.  ماتھیلا
4.  سیورائی
5.  ماڈ
6.  الور
7.  سیوستان
مومل  جی ماڑی کے کھنڈرات اس پہاڑ ی ٹیلے پر ایک عظیم الشان قلعے کی موجودگی کا پتہ  دیتے ہیں، جب کہ ان کھنڈرات سے وقتاً فوقتاً زیورات، ظروف و دیگر اشیاء ملتی  رہتی ہیں، جو وہاں دور قدیم کےکسی قلعے یا محل کی موجودگی کا ثبوت فراہم کرتی  ہیں۔

تاریخ معصومی میں اس قلعے کا تذکرہ قلعہ ’’ماتھیلہ ‘‘کے نام سے کیا گیا ہے، اور اسی نام کی مناسبت سے میرپور ماتھیلو کا قصبہ موسوم ہے۔

لوک داستان  مومل رانو ان ہی قدیم آثار سے منسوب ہے۔ یہاں سے ہندو فن تعمیر کا کوئی نمونہ  نہیں مل سکا۔

چند لوک کہانیوں کے سوا، اس شہر کے بارے میں کچھ خاص شواہد نہیں  ملے۔

تاریخ معصومی کے مطابق مسلمان مجاہد، محمد بن قاسم ثقفی نے 711ء (93ھ) کے  قریب اس علاقے پر قبضہ کرلیا اور اس وقت کا ہندو راجہ داہر، محمد بن قاسم سے  مقابلہ کرتے ہوئے مارا گیا تھا۔

مسٹر این جی موجمدار نے محکمہ آثار قدیمہ ہند کی سالانہ رپورٹ 1930-39 میں  اپنی کتاب ’’ایکسپلوریشنز ان سندھ‘‘ میں اروڑ کے قدیم آثار کا دورہ کرنے کے  بعد لکھا ہے۔ ’’جنوبی سڑک کے ساتھ ساتھ گائوں اروڑ کے عین شمال مشرق میں چھوٹی  چھوٹی ڈھیریوں کا مجموعہ ہے جنہیں مقامی طور پر ’’گڑھی گور‘‘ کہتے ہیں۔ ان کی  زیادہ سے زیادہ بلندی 8فٹ ہے۔ ان میں سے ایک میں کھدائی کے دوران زمین کی پرت  سے ساتویں یا آٹھویں صدی عیسوی کی کئی منقش اینٹیں ملی ہیں، جس سے یہ نتیجہ اخذ  کیا جاتا ہے ، کہ اروڑ کا یہ حصہ ماقبل عرب ہندو آبادی کاشہر تھا۔

روہڑی سے  تقریباً ساڑھے تین میل جنوب میں ایک گائوں ہاکڑا ہے ، اس کے اور اروڑ کے درمیان  اب نارا نہر بہتی ہے۔

1855ء میں کیپٹن کربی نے اس نہر کی کھدائی کے سلسلے میں  لکھاتھا کہ ’’اس عظیم نارا نہر کو کھودتے ہوئے ہمیں کبھی کبھار اینٹوں کے ٹوٹے پھوٹے ڈھیر ملے ، بالآخر زمین سے تقریباً دس فٹ نیچے ، گہرائی میں بے شمار  مکانات کی بنیادیں ملیں۔ ان آثار میں ہمیں چکنی مٹی کی بنی ہوئی کئی چیزیں  ملیں، جیسے پانی کے پیالے، ایک کوزہ، کچھ پرنالے اور بچوں کے بہت سے کھلونے۔ 

زمین کی سطح سے دس فٹ نیچے اس مدفون شہر کے متعلق ہمارا تجسس ہمیں ہاکڑا لے گیا، جہاں ایک بزرگ آدمی نے اس شہر کی موجودگی کی تصدیق کی اور وہ ہمیں نارا  ہیڈ سے دو میل کے فاصلے پر لے گیا، جہاں کھنڈرات تلے دبے ہوئے قدیم دور کے ایک  بازارکے آثار نظر آئے ، لیکن اب ان دبی ہوئی عمارتوں کا کوئی نشان نہیں ہے۔ 

شاید مزید کھدائی کے نتیجے میں قدیم دور کی کسی بستی کے کھنڈرات ضرور ملیں گے‘‘۔ انہوں نے بھی اپنے ایک تحقیقی مقالے میں مومل جی ماڑی کے قدیم آثار کی  تصدیق کی ہے۔

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

اسان جو وطن (پيارو پاڪستان)

وطن جي حب

محنت ۾ عظمت