غریبی اور غریبی کا نشہ ۔۔۔ حسن نثار
غریـبی اور غریـبی کا نشہ
چاہنے کے
باوجود غریب اس سے نجات حاصل نہیں کرسکتا۔۔
حسن نثار
یہ جو قدم قدم پر بدصورتی بکھری ہے تو
اس کے پیچھے بھی غریبی اور غریبی کا نشہ ہے۔۔۔
•
افلاس سے تو حضورؐنے پناہ مانگی ہے ۔
•
غربت اک حد سے گزر جائے تو اک خاص قسم کے نشے میں
تبدیل ہو جاتی ہے جو ’’کلرکوں‘‘ کی سمجھ میں نہیں آ سکتی ۔
•
نشہ سگریٹ کا ہو، ہیروئین کا، تمباکو والے پان
کا یا شراب کا
......
•
ہر نشئی جانتا ہے یہ جان لیوا ہے لیکن چھوڑ نہیں
سکتا، غربت کا بھی یہی حال ہے۔ چاہنے کے باوجود غریب اس سے نجات حاصل نہیں
کرسکتا۔۔
لیکن
یہ بات ’’بابوئوں‘‘ کی سمجھ میں نہیں آئے گی۔۔۔
•
مفلسی حس لطافت کو مٹا دیتی ہےبھوک آداب کے
سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی
•
بھوک...جو بدقسمتی سے برصغیر کے ڈی این اے میں
شامل ہے اسے گداگری کے زور پر ہینڈل کرنا ممکن نہیں۔
برنرڈشا نے کہا تھا....
’’ دولت مندوں اور سرمایہ داروں کی خیرات اور چندہ
سے چلنے والی انجمنیں ہمیشہ دولت مندوں کی طاقت اور موجودہ نظام کو قائم رکھنے میں
مددگار ثابت ہوتی ہیں۔وہ غریبوں کو صبرو تحمل کی تلقین و تبلیغ سے انقلابی جذبات
کو ٹھنڈا رکھتی ہیں تاکہ سرمایہ دار بے خوف وخطر ان کا خون چوستے رہیں ‘‘
آسکروائیلڈ کہتا ہے ....
’’زمانہ قدیم میں امیروں نے غریبوں کی بغاوت کو
روکنے کا یہ موثر طریقہ ایجاد کیا کہ غریبوں کے خون پسینہ کی کمائی کاتھوڑا سا حصہ
انہیں خیرات کی صورت میں واپس دے دیا کرتے تھے‘‘
غربت کے
خاتمہ سے خوبصورت خواب اور بڑی نیکی کوئی نہیں ۔
Comments
Post a Comment