کامیابی کا راز
کامیابی کا
راز
عرصہ پہلے ایک بادشاہ جو کامیابی کے راز
کی تلاش میں تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اگر اسے تین سوالوں کے جواب مل جائیں تو وہ اس
راز کو دریافت کرلے گا۔ وہ سوالات تھے۔
1. کسی کام کو شروع
کرنے کا سب سے اہم وقت کون سا ہے؟
2. کرنے کے لئے سب سے
اہم کام کون سا ہے؟
3. سب سے اہم آدمی
کون ہے؟
بادشاہ نے اپنے وزیر سے اس کا اعلان
کرنے کے لئے کہا کہ جو کوئی ان سوالوں کا جوابات دے گا تو اسے پانچ ہزار سونے کے
سکے بطور انعام ملیں گے۔ بہت سے آدمی آئے مگر کوئی بھی صحیح جواب نہ دے سکا۔
تب اس نے اپنے ملک کے عقلمند اور فاضل
آدمیوں کو اپنے دربار میں بلایا۔ اس نے کئی دن تک اس مسئلہ پر بحث کی۔ وہ بھی اسے
مطمئن نہ کر سکے کیونکہ وہ بھی ایک دوسرے سے اتفاق نہ کرتے تھے۔اگر ان میں کوئی
ایک جواب دیتا تو دوسرا اس کے خلاف دلیل دے دیتا۔
اگر کوئی ایک تجویز پیش کرتا تو دوسرا
بالکل اس کے متضادبات کہتا۔بادشاہ نے ان کے جوابات کی توثیق نہ کی۔
دارالحکومت سے کچھ فاصلے پر ایک جنگل
تھا ۔اس جنگل میں ایک بوڑھا اور عقلمند آدمی رہتا تھا جو بزرگ کی حیثیت سے مشہور
تھا۔ اس کی شہرت دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ بادشاہ نے اس کے متعلق سن رکھا تھا۔ وہ
ان سے مشورہ لینا چاہتا تھا۔ مصیبت یہ تھی کہ یہ آدمی امیر آدمی کو پسند نہیں کرتا
تھا۔ وہ ان سے ملنا نہیں چاہتا تھا لیکن وہ غریبوں کا دوست تھا۔
آخر کار بادشاہ کو اس مشکل پر قابو پانے
کی ترکیب سوجھی۔اس نے پھٹے پرانے کپڑے پہنے اور بزرگ سے ملنے روانہ ہو گیا۔وہ
چاہتا تھا کہ وہ غریب آدمی نظر آئے ۔اس نے اپنے نوکروں کو جو اس کے ہمراہ
تھے۔پیچھے ٹھہرنے کو کہا اور سیدھا بزرگ کی جھونپڑی کی طرف چلاگیا۔بزرگ اپنی
جھونپڑی کے سامنے زمین کھود رہا تھا۔وہ ایک بوڑھا اور بہت کمزور آدمی تھا۔اس کا
سانس پھولا ہواتھا۔اور آرام کیلئے بار بار رک جاتا تھا۔
بادشاہ نے بزرگ کو کہا کہ جناب میں تین
سوالوں کے جوابات معلوم کرنے بہت دور سے آیا ہوں۔
1. کسی کام کے کرنے
کا کون سا وقت ہے؟
2. کرنے کے لئے کون
سا اہم کام ہے؟
3. سب سے اہم آدمی
کون ہے؟
کیا
آپ براہ کرم ان سوالوں کے جوابات دے کر میری مدد فرمائیں گے؟
بزرگ نے اس کا شکریہ ادا کیا اور پھاوڑا
اُسے دے دیا۔بادشاہ نے کھودنا شروع کر دیا۔کچھ دیر کے بعد اس نے بزرگ سے جوابات کے
لئے کہا لیکن اسے کوئی توجہ نہ ملی۔اس نے کہا لایئے میں کھودتا ہوں۔ بادشاہ نے اسے
پھاوڑا نہیں دیا لیکن کھودتا رہا۔ وہ خاموش رہا اور خاطر جمع رکھی۔
اسے امید تھی کے وہ یہ جوابات حاصل کرنے
میں کامیاب ہو جائے گا۔جب شام ہوگئی اس نے کھودنا بند کردیا اور بزرگ سے کہا کیا
آپ مہربانی فرما کر مجھے جوابات بتائیں گے؟
بزرگ نے اب بھی کوئی جواب نہ دیا بلکہ
ایک اشارہ کیا۔بادشاہ نے دیکھا کہ ایک باریش آدمی ان کی طرف بھاگا آرہا تھا۔ اس نے
اپنے دائیں ہاتھ میں خنجر پکڑا ہوا تھا۔جب وہ ان کے قریب آیا تو گر پڑا اور بے ہوش
ہو گیا۔
بادشاہ اس باریش آدمی کو اُٹھا کر سیدھا
جھونپڑے میں لے گیا اور آرام سے اسے زمین پر لٹا دیا۔اس نے اس کے خون روکنے کا
انتظام کیا اور اس کے زخم پر پٹی باندھی بوڑھا جلد ہی سو گیا۔
اس وقت رات ہو چکی تھی۔بادشاہ اتنی
تھکاوٹ محسوس کررہا تھا کہ گھر واپس جا سکے۔بزرگ نے اسے رات ٹھہرنے کی دعوت
دی۔بادشاہ نے اس مہمان نوازی کو قبول کرلیا۔بزرگ نے اسے کھانا اور سونے کے لئے
سوکھی گھاس کا بستر دیا۔
دن چڑھے بادشاہ بیدار ہوا۔اس نے دیکھا
کہ باریش آدمی بھی جاگ گیا تھا۔بادشاہ نے اس سے کہا اب آپ کیسے ھیں؟
باریش نے جواب دیا ۔میں اب بہتر محسوس
کررہا ہوں۔ بادشاہ سلامت کا ممنون ہوں۔ مجھے معاف کردیں، میں یہاں آپ کو قتل کرنے
آیا تھا کیونکہ آپ نے میرے بھائی کو قتل کرایا تھا۔میں اس غم میں آپ کا بدترین
دشمن ہوں۔میں چھپا ہوا تھا اور آپ کی واپسی کا انتظار کررہا تھا جب آپ واپس نہیں
لوٹے تو میں اپنی خفیہ جگہ سے نکل آیا۔ آپ کے نوکروں نے مجھے دیکھا اور پہچان لیا۔
انہوں نے مجھے شدید زخمی کردیا لیکن میں بچ نکلا۔ اگر آپ نے میری دیکھ بھال نہ کی
ہوتی تو میں مرگیا ہوتا۔اب آپ مجھے اپنے مخلص خادمو ں میں شمار کر سکتے ہیں۔یہ کہہ
کر اس نے بادشاہ کو سلام کیا اور چلاگیا۔
جب باریش آدمی چلا گیا تو بادشاہ نے پھر
بزرگ سے اپنے سوالات کے جوابات کے لئے کہا۔
بزرگ نے جواب دیا۔آپ پہلے ہی جواب حاصل
کر چکے ہیں۔
سب سے اہم وقت تھا جب آپ میری مدد کرنا
چاہتے تھے۔
سب سے اہم کام زمین کی کھدائی تھا اور
میں آپ کے لئے سب سے اہم آدمی تھا۔
کیا ایسا نہیں تھا؟
آپ واپس جاتے اور قتل ہو جاتے۔
دوسری مرتبہ سب سے اہم شخص باریش آدمی
تھا۔اور سب سے اہم کام اس کی مرہم پٹی تھا۔اگر ایسا نہ ہوتا تو آپ ایک وفادار نوکر
سے محروم ہو چکے ہوتے۔آپ بہت خوش قسمت ہیں۔
اس لئے اس سبق کا اخلاقی نتیجہ یہ کہ:
1. کسی کام کرنے کا
سب سے اہم وقت حال ہے۔
2. سب سے اہم کام وہ
ہے جو ہم اب کر رہے ہیں اور
3. سب سے اہم شخص وہ
ہے جس کے ساتھ ہم اس لمحہ ہیں۔
Comments
Post a Comment