منجن سے ٹوتھ پیسٹ تک کا سفر



منجن سے ٹوتھ پیسٹ تک کا سفر
ڈپریشن، سردرد، بلڈ پریشر

·      بلب انرجی سیور میں بدل گئے اور انرجی سیور ایل ای ڈی میں۔
·      پینٹیم 4 جو اسٹیٹس سمبل سمجھا جاتا تھا، آج کسی کو یاد ہی نہیں۔
·      کمپیوٹر ٹھیک کرنے والے 'انجینئر‘ کہلاتے تھے‘ آج کل مکینک کہلاتے ہیں۔
·      محلے کا ڈاکٹر ایک ہی سرنج سے ایک دن میں پچاس مریضوں کو ٹیکے لگاتا تھا، لیکن کسی کو کوئی انفیکشن نہیں ہوتی تھی۔


·      یرقان یا شدید سردرد کی صورت میں مولوی صاحب ماتھے پر ہاتھ رکھ کر دم کردیا کرتے تھے اور بندے بھلے چنگے ہوجاتے تھے۔
·      چھت پر سونا خواب بن گیا ہے۔
·      بچے اب قینچی سائیکل نہیں چلاتے، کیونکہ ہر عمر کے بچے کے سائز کا سائیکل آچکا ہے۔
·      واک مین بھی ختم ہوگئے۔
·      پانی کے ٹب میں موم بتی سے چلنے والی کشتی بھی نہیں رہی۔
·      چائے پیالی سے نکل کر کپ میں قید ہوگئی۔
·      پہلے کسی کو اُستاد بنایا جاتا تھا‘ اب اُستاد مانا جاتا ہے۔

یہ سب کچھ ہم سب نے اپنی آنکھوں کے سامنے تیزی سے بدلتے ہوئے دیکھا۔
·      شہروں میں زنگر برگر اور فاسٹ فوڈ کی اتنی دوکانیں کھل گئی ہیں کہ آپ اگر مکئی کی روٹی اور ساگ کھانا چاہیں، تو ڈھونڈتے رہ جائیں۔
·      گھروں میں بننے والی لسی اب ریڑھیوں پر آگئی ہے۔
·      فریج آیا تو 'چھکو‘ بھی گیا۔
·      بچے اب ماں باپ کو امی ابو سے زیادہ 'یار‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔
·      جن سڑکوں پر تانگے دھول اڑاتے تھے‘ وہاں اب گاڑیاں دھواں اڑاتی ہیں۔
·      کیا زمانہ تھا جب گھروں کے دروازے سارا دن کھلے رہتے تھے بس آگے ایک بڑی سی چادر کا پردہ لٹکا ہوا ہوتا تھا۔ اب تو دن کے وقت بھی بیل ہو تو پہلے سی سی ٹی وی کیمرے میں دیکھنا پڑتا ہے ۔
·      گداگروں کو پورا محلہ جانتا تھا اور گھروں میں ان کے لیے خصوصی طور پر کھلے پیسے رکھے جاتے تھے۔
·      امتحانات کا نتیجہ آنا ہوتا تھا تو 'نصر من اللہ وفتح قریب‘ پڑھ کر نکلتے تھے اور خوشی خوشی پاس ہوکر آجاتے تھے۔
·      آئس کریم دوکانوں سے نہیں لکڑی کی بنی ریڑھیوں سے ملتی تھی جو میوزک نہیں بجاتی تھیں۔
·      گلی گلی میں سائیکل کے مکینک موجود تھے‘ جہاں کوئی نہ کوئی محلے دار قمیص کا کونا منہ میں دبائے ‘ پمپ سے سائیکل میں ہوا بھرتا نظر آتا تھا۔
·      گفتگو ہی گفتگو تھی‘ باتیں ہی باتیں تھیں‘ وقت ہی وقت تھا۔
·      جن کے گھر وں میں ٹی وی آچکا تھا ‘انہوں نے اپنے دروازے محلے کے بچوں کے لیے ہمیشہ کھلے رکھے۔
·      مٹی کا لیپ کی ہوئی چھت کے نیچے چلتا ہوا پنکھا سخت گرمی میں بھی ٹھنڈی ہوا دیتا تھا۔

لیکن...پھر اچانک سب کچھ بدل گیا۔

ہم قدیم سے جدید ہوگئے۔

اب باورچی خانہ سیڑھیوں کے نیچے نہیں ہوتا۔

کھانا بیٹھ کر نہیں پکایا جاتا۔دستر خوان شاید ہی کوئی استعمال کرتا ہو۔

منجن سے ٹوتھ پیسٹ تک کے سفر میں ہم نے ہر چیز بہتر سے بہتر کرلی ہے‘ لیکن پتا نہیں کیوں اس قدر سہولتوں کے باوجود ہمیں گھر میں ایک ایسا ڈبہ ضرور رکھنا پڑتا ہے‘ جس میں ڈپریشن‘ سردرد‘ بلڈ پریشر‘ نیند اوروٹامنز کی گولیاں ہر وقت موجود ہوں۔

Comments

Popular posts from this blog

اسان جو وطن (پيارو پاڪستان)

وطن جي حب

محنت ۾ عظمت