مُکھی ہاؤس میوزیم حیدرآباد سندھ
شاندار فنِ تعمیر کا شاہکار نمونہ
· مُکھی ہاؤس – مُکھی محل – مُکھی ہاؤس میوزیم
· مُکھی محل جیٹھا نند مکھی بِن پرتم داس
(1833ء-1927ء)نے 1920ء میں اپنی خواہش اور پسند کے عین مطابق تعمیر کروایا۔
· جیٹھانند مُکھی اس زمانے میں حیدرآباد کی شہری
انتظامیہ کے سربراہ تھے۔ شہر کے کافی انتظامی معاملات ان کے سپرد تھے۔
· مکھی ہاؤس سے تھوڑے سے فاصلے پر مُکھی باغ بھی تھا
مگر اب اس باغ کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے، یہاں پر اب گنجان آبادی ہے۔
· اس شاہکار گھر کی تعمیر کے 7 برس بعد جیٹھانند مکھی
1927ء میں اس دنیا سے چل بسے اور یہ شاندار محل نما گھر ان کی بیوہ اور دو بیٹوں
کے نام ہوگیا ۔
· وقت اور حالات کبھی ایک جیسے نہیں رہتے، وقت کے
بہتے دریا کا رُخ کبھی انسان کے حق میں تو کبھی اس کے خلاف ہوجاتا ہے۔
· مُکھی خاندان پاکستان بننے کے بعد بھی اسی شہر اور
گھر میں مقیم رہا۔ تاہم 1957ء میں انھوں نے بھی اس محل نما گھر کو خیرباد کہہ کر
ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہندوستان میں رہائش اختیار کرلی۔
· کسی زمانے میں مُکھی ہاؤس میں ہندوستانی سفارت
خانہ بھی قائم کیا گیا تھا۔ بعد میں یہ ایف سی کا ہیڈ کوارٹر رہا، جبکہ اس کے نچلے
حصے کو اسکول میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔
· 1988ء میں حیدرآباد شہر میں لسانی فسادات ہوئے۔
انہی دنوں مکھی ہاؤس کو نذر آتش کردیا گیا۔ گھر کے دروازے، کھڑکیاں اور کمروں میں
رکھا فرنیچر جل کر خاک ہوگئے۔
· 2009ء میں
سندھ حکومت کے محکمہ آثارِ قدیمہ نے اس گھر کو سنبھالنے کا فیصلہ کیا۔
·
2013ء میں
مکھی خاندان نے اپنے قدیم گھر کا دورہ کیا اور اسے سندھ حکومت کے حوالے کرنے کے
بعد میوزیم میں تبدیل کرنے کی اجازت دی، چنانچہ اب یہ ’مُکھی ہاؤس میوزیم‘ کہلاتا
ہے۔
حیدرآباد میں پکا قلعہ کے مرکزی
دروازے اور ہوم اسٹیڈ ہال کے سامنے ’مُکھی ہاؤس‘ کے نام سے مشہور ہے۔
مکھی ہاؤس کے مرکزی دروازے کے
اردگرد مضبوط دیوار ہے۔ دائیں جانب سیڑھیوں سے چڑھتے ہی بڑے صحن میں داخل ہوتے ہیں،
جس کے متعلق مقامی رہائشیوں کا کہنا ہے کہ یہاں مکھی خاندان کے افراد عبادت کرتے
اور پرساد تقسیم کرتے تھے۔
نچلی منزل 8 کمروں پر مشتمل ہے،
ہر کمرے میں تین سے چار دروازے ہیں اور ہر دروازہ دوسرے کمرے میں کھلتا ہے ۔ اس کے
علاوہ ہر کمرے میں متعدد روشن دان ہیں۔ برآمدے کے مشرقی حصے میں دو باتھ روم اور
ایک سنڈاس (جائے حاجت) ہے۔ ایک لکڑی کی سیڑھی صحن کی مغربی سمت سے پہلی منزل کی
طرف جاتی ہے۔
پہلی منزل 6 بیڈروم اور ایک چھوٹے
سے ہال پر مشتمل ہے جبکہ مشرقی اور مغربی جانب مزید دو کمرے اور اسٹور روم ہے۔
دونوں کمرے کشادہ ہال کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ جنوبی جانب ایک برآمدہ اور بالکنی
ہے، جس کے مشرقی حصے میں دو باتھ روم اور ایک سنڈاس ہے۔اندرونی دیواریں مختلف قسم
کی پینٹنگز سے سجی ہوئی ہیں ۔
کھڑکیوں اور دروازوں میں شیشم اور
ساگوان کی لکڑی کا استعمال کیا گیا ہے۔ ہر کمرے کی دیوار میں الماریاں نصب کی گئی
ہیں اور روشندان بنائے گئے ہیں۔ اس دور میں جو فن تعمیر کے رجحانات تھے، انہیں
برقرار رکھتے ہوئے اس گھر کو بنایا گیا ہے۔ مگر اس گھر کی خاص بات یہ ہے کہ اس کا
ایک مرکزی گنبد بھی ہے، جو اسے تمام عمارات سے ممتاز بناتا ہے اور اسے دور سے بھی
دیکھا جا سکتا ہے۔ کشادہ کمرے اور راہداریاں بھی گھر کی زینت میں اضافہ کرتی ہیں۔
عمارت کی تعمیر میں اینٹ کے بجائے بلاکس کا استعمال کیا گیا ہے۔
آتشزنی کے باعث دیواروں پر بنائے
گئے نقش و نگار بھی مٹ گئے تھے مگر چند بچ جانے والے نقوش کو دیکھ کر دیواروں اور
چھت پر اسی قسم کے نقش و نگار ایک بار پھر سے بنائے گئے ہیں، تاکہ اس کی قدامت
برقرار رہے۔
Comments
Post a Comment