ہیلن کیلر


ہیلن کیلر
 وہ لوگ کتنے خوش نصیب ہیں جو اس دنیا کی خوبصورتی کو دیکھنے کے لیے دو آنکھوں کے سا تھ پیدا ہوئے لیکن یہاں کچھ بدنصیب لوگ بھی ہیں جو نہ دیکھ سکتے ہیں نہ سن سکتے ہیں۔ یہ دنیا جو خوبصورت رنگوں اور دلکش آوازوں سے بھری ہوئی ہے، ایسے بدنصیب لوگوں کے لئے بے رنگ اور بے کار معلوم ہوتی ہے۔آہ کتنی بدقسمتی ہے۔ وہ باغوں میں کھلتے ہوئے پیا رے پھولوں کو نہیں دیکھ سکتے اور پرندوں کے رسیلے گیتوں کو نہیں سُن سکتے۔ وہ حقیقت میں بہت غم محسوس کرتے ہیں اس لئے کہ ان کی قسمت بہت خراب ہے۔ ان کی قسمت ان سے بھی بدتر ہے جو ایک دفعہ دیکھ سکتے ہیں اور سن سکتے ہیں اور اس کے بعد نہیں۔لیکن وہ اتنے بلند حوصلہ اور بہادر ہیں کہ وہ ناخوش نظر نہیں آتے وہ اپنی تقدیر کے چیلنج کو قبول کرتے ہیں اور خوش و خرم رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔

 ایسے بہادر اور با حوصلہ اشخاص کے درمیان مس ہیلن کیلر کا نام سر فہرست ہے۔ ہیلن کیلر ریاست ہاے متحدہ امریکہ کے ایک چھوٹے سے گاﺅں میں 1880ع میں پیدا ہوئی۔ دو سال کی عمر تک وہ عام بچوں جیسی تھی۔ ہر چیز دیکھ سکتی تھی۔ فروری 1882 کو چھوٹی ہیلن شدید بیمار ہوگئی ۔ہر ایک اس کے لئے غمزدہ تھا کیونکہ وہ اندھی اور بہری ہوگئی تھی۔ اس کے والدین بہت غمگین دکھائی دیتے تھے ۔ ہر کوئی غمزدہ تھا اور چھوٹی بچی پریشان محسوس ہوتی تھی۔

 جب وہ سات سال کی ہوئی تو اس کی زندگی اچانک تبدیل ہوگئی۔ ہیلن کے والد نے ایک خاتون جس کا نام مس سیلون تھا اپنی بچی کی دیکھ بھال کرنے کو کہا مس سیلون بذاتِ خود اندھی ہو گئی تھیں جب وہ بچی تھی لیکن بعد میں اس کی نگاہ واپس آگئی تھی۔ اس نے خدا کی مہربانی کا شکریہ دوسرے نابینا کی مدد کر کے اور انہیں خوش اور مطمئن کر کے ادا کیا۔اس نے ہیلن کو پڑھانا شروع کیا، ایک دن وہ ہیلن کو دریا کے کنارے لئے گئی اور اس کے ہاتھ کو پانی میں ڈالا۔ آہستہ آہستہ اس نے ریت پر لفظ پانی لکھوایا۔ اس نے یہ عمل اس سے کئی مرتبہ کروایا۔ اس طرح ہیلن جان گئی کہ لفظ پانی کے ہجے کیسے کرتے ہیں۔ وہ بہت خوش تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ آخر کار اس کی تاریک دنیا میں کچھ روشنی ہو گی۔

 کام بہت آہستہ اور مشکل تھا لیکن مس سیلون بہت مہربان اور صابر تھی۔تھوڑا تھوڑا کر کے اس نے ہیلن کو پہاڑوں، دریائوں، تاریخ اور جغرافیہ کے بارے میں سکھایا۔ اس نے اسے گننا اور سوالات کرنا بھی سکھا دئیے۔

 جب وہ آٹھ سال کی ہوئی اسے اندھے بچوں کے اسکول میں بھیجا گیا۔وہ بولنا بھول گئی تھی لیکن اس کی اُستانی نے اس کی مدد کی اس نے ہیلن کا ہاتھ اپنے ہونٹوں پر رکھا اور بولتے وقت ہونٹوں کی حرکت کو اسے محسوس کر وایا۔ ہیلن نے اس قسم کی بہت مشقیں کیں۔ آخر کار دس سال کی عمر میں وہ دوبارہ بولنے کے قابل ہوگئی۔ اس نے خوشی سے کہا  ”کتنی خوشی کی بات ہے“ ۔ آہستہ آہستہ اس نے کتابیں پڑھنا سیکھ لیا۔ یہ کتابیں بجائے حروف کے اُبھرے ہوئے لفظوں میں چھاپی گئی تھیں۔ اور وہ انہیں اپنی انگلیوں سے چھو کر پڑھتی تھی۔ اس طرح سے وہ دوسرے لوگوں کے برابر سیکھنے کے قابل ہوگئی۔ اس نے اپنے تمام امتحانات آسانی سے پاس کر لئے ۔ وہ کالج گئی اور پھر ہاورڈ یونیورسٹی ۔ اس نے یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی اور بغیر کسی مشکل کے بی اے پاس کر لیا۔ وہ دوسروں کے مقابلے میں بہتر طالب علم ثابت ہوئی ۔ اس کے اساتذہ اس سے بہت محبت کرتے اور اس کی تعریف کرتے تھے ۔

1956 میں یہ حیرت انگیز خاتون پاکستان تشریف لائیں۔ اس کی عمر 76 سال تھی۔ پھر بھی وہ بڑی چاک و چوبند تھیں۔ پاکستان کے لوگوں نے اس کا پُر جوش خیر مقدم کیا۔ وہ پاکستان میں اندھے اور بہروں کی مدد کرنے تشریف لائیں ۔ اس نے کراچی میں اجتماعات سے خطاب کیا اور اندھے ، بہرے اور گونگے لوگوں کے اسکول گئیں ۔ اس نے خوشی سے کہا کتنا پیارا اسکول ہے۔ آپ کے ساتھ ہونا کتنا حیرت انگیز ہے۔ میرے پیارے بیٹے اور بیٹیو ہمیشہ خوش و خرم رہو۔ اپنی تقدیر کو بُرا مت کہو۔آپ اس دنیا میں سب کچھ کر سکتے ہیں۔ اس نے اسکول کے طالب علموں سے کہا اور اس نے تہہ دل سے تمام خواتین کی تعریف کی، جو وہاں رضاکارانہ طور پر جوش اور بے لوث محبت کے ساتھ تعلیم دے رہی تھیں۔






Comments

Popular posts from this blog

اسان جو وطن (پيارو پاڪستان)

وطن جي حب

محنت ۾ عظمت