پرانے دور کے والدین – نئے دور کے بچے



پرانے دور کے والدین – نئے دور کے بچے

فاروق احمد انصاری
  
·      والدین اپنے بچوں سے اچھے نتائج چاہتے ہیں تاکہ وہ بچوں کی کارکردگی پر فخر کرنے کے ساتھ دوستوں اور رشتے داروں میں اپنے بچوں کی تعریف کرسکیں۔
·      اسکولوں کے پرنسپلز اور ماہرینِ نفسیات سے بات کی گئی تو یہ سامنےآیا کہ والدین کی بچوں سے حد سے زیادہ توقعات بچوں کو ذہنی دباؤ کا شکار کردیتی ہیں، جس سے ان کی تعلیمی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔
·      بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ کتابوں سے باہر کی زندگی گزارنے کی مہارتیں بھی سیکھنی ہوتی ہیں۔
·      اگر والدین یہ چاہیں کہ جیسے انہوں نے اپنا بچپن گزارا یا پڑھائی کی، بچہ بھی ویسے ہی کرے تو اس سے مسئلہ سنگین ہوسکتاہے۔
·      اگر بحیثیت والدین آپ اپنے بچوں کوکچھ سکھاناچاہتے ہیں تو آپ کو رول ماڈل بننا پڑے گا۔


نئے دور میں والدین اپنے بچوں کو ہر قسم کی سہولتیں فراہم کرنا چاہتےہیں اور بیشتر کر بھی رہے ہیں۔ چاہے وہ جدید ترین گیجٹ ہو یا مطالعے کیلئے بہترین کتابیں، کھانے پینے کی کوئی چیز ہو یا پھر کپڑوں کا انتخاب، والدین اپنے بچوں کو یہ سب فراہم کرنے کیلئے دن رات کوشش اور انتھک محنت کرتے ہیں۔ والدین کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے بڑے ہو کر خوش خرم زندگی گزاریں اور معاشرے کا کارآمد فرد بن کے رہیں لیکن یہی بچے جب اپنے امتحان میں کم نمبر لاتے ہیں تو والدین کی پریشانی دو چند ہو جاتی ہے۔ ان کے دماغ میں یہ سوال گردش کررہا ہوتا ہے کہ اب وہ مزید ایسا کیا کریں کہ ان کے بچوں کی کارکردگی بہتر ہوجائے۔ اس سلسلے میں اگر والدین بچوں کی بات نہ سنیں یا ان کے نقطہ نظر کو اہمیت نہ دیں تو مسئلہ گمبھیر ہو سکتاہے۔ بچوں میں اگر اعتماد کی کمی ہو اور والدین کی سپورٹ حاصل نہ ہوتو اس سے ان کے اندر کا خوف بڑھتا چلا جاتاہے، جو ان کی کارکردگی میں ایک بہت بڑی رکاوٹ بن جاتاہے۔ مزید برآں، یہ بھی نوٹ کیا گیا ہے کہ اس قسم کی گھبراہٹ یا خوف کو بچے ’والدین کادبائو‘ قرار دیتے ہیں۔

بچوں پر والدین کے بے جا دبائو کے حوالےسے اسکولوں کے پرنسپلز اور ماہرینِ نفسیات سے بات کی گئی تو یہ سامنےآیا کہ والدین کی بچوں سے حد سے زیادہ توقعات بچوں کو ذہنی دباؤ کا شکار کردیتی ہیں، جس سے ان کی تعلیمی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ دراصل والدین اپنے بچوں سے اچھے نتائج چاہتے ہیں تاکہ وہ بچوں کی کارکردگی پر فخر کرنے کے ساتھ دوستوں اور رشتے داروں میں اپنے بچوں کی تعریف کرسکیں، اکثر اوقات یہ توقعات غیر حقیقی ہوتی ہیں کیونکہ ہر بچہ ایک جیسا نہیں ہوتا اور ہر کوئی اپنی صلاحیتوں کے مطابق والدین کی توقعات پر پورا نہیں اُترتا۔

ایک اسکول کے پرنسپل کا کہنا ہے،’’ کسی بھی فرد کی بھی زندگی میں تعلیم بہت اہمیت رکھتی ہے لیکن تعلیم کے ساتھ ساتھ طرزِ زندگی یا لائف اسٹائل بھی اہمیت رکھتاہے۔ بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ کتابو ں سے باہر کی زندگی گزارنے کی مہارتیں بھی سیکھنی ہوتی ہیں۔ اتنی ساری چیزیں سیکھنے میں کہیں نہ کہیں سمجھوتہ ہو ہی جاتاہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بچے زندگی گزارنے کے طور طریقے سیکھ ہی جاتے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ صرف زندگی کی مہارتیں (Life skills)ہی انہیں خود انحصاری اپنانے میں مدد کرتی ہیں ‘‘۔

یہ حقیقت ہے کہ ہر بچہ اپنی فطرت پر پیدا ہوتاہے اور اپنے والدین سے مختلف ہوتاہے کیونکہ وہ اس زمانے سے آگے ہوتا ہے، جس میں اس کے والدین پلے بڑھے ہیں۔ اگر والدین یہ چاہیں کہ جیسے انہوں نے اپنا بچپن گزارا یا پڑھائی کی، بچہ بھی ویسے ہی کرے تو اس سے مسئلہ سنگین ہوسکتاہے۔ والدین کو ذہن میں رکھنا چاہئے کہ ان کےبچے جیسا کوئی اور نہیں ہے، سیلف میڈ بننے میں اس کی مدد کرنی چاہئے۔ یہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ ان کا بچہ اپنی شخصیت پر پروان چڑھے نہ کہ دوسروں کی پیروی یا نقل کرتا رہے۔

والدین کی ذمہ داریاں آسان نہیں ہیں کہ بنا ہچکولے لیے گاڑی آگے بڑھتی رہے۔ بچے سنتے ہیں، مشاہدہ کرتے ہیں اوروہی کرتے ہیں جو ان کےوالدین کرتے ہیں۔ اگر بحیثیت والدین آپ اپنے بچوں کوکچھ سکھاناچاہتے ہیں تو آپ کو رول ماڈل بننا پڑے گا۔

اس ضمن میں آپ کو بچوں کے ٹیچرز اور دوستوں سے پُرمغز بات چیت کرنے کی ضرورت ہے، جو ا ن کے حاصل کردہ مارکس سے بھی زیادہ اہم ہے۔ اس سےبچے کو حوصلہ ملتاہے کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار اپنے والدین سے کرے اور نت نئے آئیڈیاز انہیں دے۔ اس طرح اسے زمانے کی اونچ نیچ سمجھنے میں یہ حوصلہ ملے گا کہ اس کے والدین ہر قدم پر ساتھ ہیں۔

یہ زمانہ مقابلہ بازی کا ہے، ہر شخص دوسرے سے آگے نکلنے کی تگ و دو میں لگا ہوا ہے۔ والدین بھی اسی بھاگ دوڑ میں شامل ہیں لیکن آگے نکلنے کے چکر میں بچے کو اتنا نہ دوڑائیں کہ وہ تھک کر گر پڑے اور فنشنگ لائن اس سے دوقدم کے فاصلے پر رہ جائے۔ اس سلسلے میں کچھ تجاویز نوٹ کی جاسکتی ہیں۔


بچوں کو صرف کتابی کیڑ انہ بنائیں

کیونکہ کتابوں سے باہر کی دنیا میں سیکھنے کو بہت کچھ ہے اور اس سے ان کی جسمانی صحت بھی برقرار رہتی ہے۔ کھیل کود کے دوران کئے گئےفیصلے بھی ان کی آئندہ زندگی میں بہت کام آئیں گے۔

دوسروں کی عزت کرنا سیکھائیں

بڑوں کی عزت کرنا ہمارے معاشرے کا حصہ اورمذہب کا جزو ہے۔ بچوں کو سکھائیں کہ صرف الفاظ سے ہی نہیں اپنی حرکات و سکنات سے بھی دوسروں کی عزت و احترام کو ملحوظ خاطر رکھنا ہے۔


معمولی غلطیوں پر انہیں ڈانٹنا نہ شروع کردیں۔ 

ان کی زندگی سے آپ خود لطف اندوز ہوں یعنی ان کے ساتھ مل کر اپنا بچپن دوبارہ جینا شروع کردیں۔ کبھی کبھی چھوٹی غلطیاں بھی بہت کچھ سکھا دیتی ہیں۔ بچوں کو ان کی اسکولنگ انجوائے کرنے دیں۔ ان کے دماغ کو پریشر کوکر نہ بنائیں۔

مشاہد ات سے سکھائیں

والدین مختلف حالات اور لوگوں کی زندگی کے بارے میں بتاکر بچوں کے خیالات جان سکتے ہیں۔ اس سے ان میں عزتِ نفس اور اعتما د پیدا ہوگا اور انہیں صحیح اور غلط کے درمیان فرق سمجھنے کا موقع ملے گا۔


کچھ نیا سیکھنے میں بچوں کی حوصلہ افزائی کریں۔ 

کوئی دلچسپ مشغلہ جیسے باغبانی، جانور پالنا، ڈرائنگ بنانا وغیرہ ان کے مستقبل میں کام آسکتاہے اور وہ زندگی سےلطف اندوز ہو سکتے ہیں۔

 Source: Daily Jang

Comments

Popular posts from this blog

اسان جو وطن (پيارو پاڪستان)

وطن جي حب

محنت ۾ عظمت