تحریک پاکستان میں خواتین کا کردار
تحریک
پاکستان میں خواتین کا کردار
آ پ پہلے ہی پڑ ھ چکے ہیں کہ پاکستان 14
اگست 1947 کو وجود میں آیا- اس سے پہلے بر صغیر پر انگریزوں کی حکومت تھی- برطانیہ
کی تقریباً ایک سو سالہ حکومت کے بعد دونوں ہندوﺅں اور مسلما نوں نے محسوس کیا کہ
انہیں دوبارہ ضرور آزادی حاصل کرنا چاہیئے اور انگریزوں کی حکمرانی کو ختم کرنا چا
ہئیے- شروع میں دونوں ہندوﺅں اور مسلمانوں نے انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنے کے
لئے ایک ساتھ کام کیا-ایک ساتھ مل کر انہوں نے ایک سیاسی پارٹی بنائی جسے انڈین
نیشنل کانگریس کہا گیا۔ لیکن جلدی مسلمانوں نے محسوس کیا کے ہندو جو کانگریس اور
اس کے ساتھ ساتھ ملک میں بھی اکثریت میں تھے وہ مسلمانوں کے ساتھ کبھی برابری کا
سلوک نہیں کریں گے اور آزادی کے پھل میں ان کو حصّہ دار نہیں بنائیں گے۔ اس لئے
انہوں نے اپنی سیاسی جماعت بنائی اور اسے مسلم لیگ کا نام دیا- بہت سے مسلمان لیڈر
جو پہلے کانگریس پارٹی میں شامل تھے اسے چھوڑکر مسلم لیگ کے ممبر بن گئے- 1934 میں
قائداعظم محمد علی جناح اس کے صدر بن گئے- مسلمانوں نے ان کی قابل رہنمائی اور
قیادت میں ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر جمع ہو کر ایک آزاد مسلم ریاست کے لئے جدوجہد شروع
کی جس کو پاکستان کہا گیا۔
انگریزوں کو احساس دلانا بہت مشکل تھا کہ
وہ ہندوستان کو آزادی دینے سے پہلے مسلما نوں کے مطالبات پر غور کریں- ایک طویل
اور مشکل جدوجہد شروع ہو گئی- اس شاندار جدوجہد میں نہ صرف مردوں نے حصّہ لیا بلکہ
عورتوں نے بھی اس عظیم کوشش میں بھرپور حصہ لیا۔ اس وقت ہماری خواتین سخت پردہ کر
تیں تھیں- وہ کم تعلیم یافتہ تھیں اور ہندو عورتوں کے مقابلے میں سیاسی طور پر کم
باشعور تھیں لیکن پھر بھی بہت سی بہادر اور بے غرض خواتین ان رُکاوٹوں کے باوجود آگے
آئیں اور مردوں کے شانہ بشانہ نیک مقصد کے لئے کام کیا- انہوں نے خواتین کو منظم
کرنے اور ملک کی سیا ست سے باخبر رکھنے کے لئے مسلم لیگ کی خواتین شاخ قائم کی۔ انہوں
نے دیہاتوں کا سفر کیا۔ وہاں عورتوں کو بتایا کہ انہیں وہاں کیا کرنا چاہئیے- انہوں
نے خواتین کے لئے عوامی جلسے منعقد کئے اور بڑے بڑے اجتماعات سے خطاب کیا۔ انہوں
نے ان عوامی جلسوں میں بھی حصہ لیا جنہیں مردوں نے منظم کیا تھا اور عظیم اجتماعات
کے سا منے تقریریں کیں- وہ انگریز افسروں کی بیویوں اور بیٹیوں سے جن میں وائسرائے
کی بیوی اور بیٹی شامل تھیں ملیں اور انہیں احساس دلایا کہ ان کا مطالبہ صحیح تھا۔
انہوں نے مسلمان لڑکیوں کو تعلیم یافتہ کرنے کیلئے اپنے گھروں میں کلاسیں لگائیں۔
کبھی کبھی پولیس نے خواتین کے جلسوں میں آنسو گیس استعمال کی اور لاٹھی چارج کیا
اور ان کی لیڈروں کو گرفتار بھی کیا۔
انہوں نے اپنے بھائیوں ، شوہروں اور
بیٹیوں کی حو صلہ افزائی کی کہ وہ اپنی جدوجہد کو اس وقت تک ترک نہ کریں جب تک
اپنے مقصد کو حاصل نہ کر لیں - ایسی بے غرض اور جراتمند خواتین میں ضعیفہ عبادی
بیگم جو کہ بی اماں کے نام سے مشہور تھیں سر فہرست ہیں۔
ضعیفہ عبادی بیگم (بی اماں)
بی اماں مولانا محمد علی اور مولانا شوکت
علی کی والدہ تھیں جو کہ دو دلیر اور شریف بھائی تھے جنہوں نے اپنی زندگیاں مسلما
نوں کے مقصد کے لئے وقف کر دی تھیں- جب اس جدوجہد میں دونوں بھائی گرفتار ہوئے
مقدمہ چلا اور دو سال کی سزا ہوئی تو اس نے ان کو پیغام بھیجا کہ اپنے مقصد کو ترک
نہ کریں اور نہ ہی معافی مانگیں جو ان کی رہائی کی شرط تھی۔ بی اماں نے کسی اسکول
یا کا لج سے تعلیم حاصل نہیں کی تھی- اس کی عظمت اس حقیقت میں پوشیدہ تھی کہ اس نے
اپنے بیٹوں کو مسلمانوں کی خاطر اپنی زندگیاں قربان کر نے کے لئے تیار کیا اور بعد
میں اس مقصد کے حصول کے لئے ان کی حوصلہ افزائی کی۔
بیگم محمد علی
دوسری قابل تعریف خاتون بیگم محمد علی
ہیں ۔برقعہ میں ملبوس انہوں نے نہ صرف مردوں کے جلسوں میں شرکت کی بلکہ وہ پہلی
مسلم خاتون تھیں جس نے ان سے خطا ب کیا وہ سادہ الفاظ اور قدرتی انداز میں متاثر
کن تقریر کرتیں وہ اخبارات کے لئے بھی لکھتیں ان کی رائے کا بہت احترام کیا جاتا
اور قائداعظم ان کی بہت عزت کرتے تھے۔ جب وہ عورتوں کے جلسوں سے خطاب کر تیں تو
بہت بڑا ہجوم ان کو سننے کے لئے آ تا۔ مرد اور خواتین یکساں ان کی عزت کرتے تھے۔
محترمہ مس فاطمہ جناح
پھر محترمہ مس فاطمہ جناح تھیں جن کو
بعد میں احسان مند قوم نے مادرِ ملت (قوم کی ماں) کہہ کر پکارا۔ انہوں نے پاکستان
کے قیام کی جدوجہد میں اپنے بھائی کی مدد کی۔ انہی کے ذریعے مسلمان خواتین
قائداعظم کی رہنمائی حا صل کرتیں اور ان سے ملاقاتیں کرتیں۔ سیاسی طور پر زیادہ
باخبر ہونے کی بناء پر وہ اپنی معلومات دوسری خواتین تک پہنچاتیں۔ اس کے ساتھ وہ
اپنے مشہور بھائی کی دیکھ بھال بھی کرتیں تھیں۔
بیگم رانا لیاقت علی خان
بیگم رانا لیاقت علی خان نے بطور اعزازی
سیکریڑی اور ٹائپسٹ کے لیاقت علی خان (اپنے شوہر) کے پاس کا م کیا اس وقت جب مسلم
لیگ سیکریڑی کی تنخواہ ادا کرنے کے قابل نہیں تھی۔اس نے دعوتوں کا اہتمام کیا،
جہاں مسلم خواتین وائسرائے کی بیوی اور بیٹی سے مل سکیں اور انہیں اپنے نقط نظر
اور احتجاج سے آگاہ کر سکیں۔ انہوں نے خواتین کی رضا کار تنظیم تیار کی اور بعد
میں خواتین کی نیشنل گارڈ کو منظم کیا جو تین بٹالین پر مشتمل تھی جس میں 2400
لڑکیا ں تھیں جس میں خود ان کے پاس بریگیڈ یئر کا عہدہ تھا۔
سندھ مسلم خواتین کو بیدار کرنے کا کام
لیڈی نصرت ہارون ، لیڈی صغریٰ ہدایت اللہ، بیگم خیرالنساء، شعبان اور مس فخرالنساء
ولی محمد آفندی نے انجام دیا۔ لیڈی ہارون ایک اعلیٰ کردار کی پرُجوش اور ایک
مہربان، میزبان خاتون تھیں ان کا گھر کراچی میں خواتین کی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز
بن گیا اور یہ مقام تھا جہاں مسلم لیگ کے ان کار کنوں کو خوش آمدید کہا جاتا جو
جلسوں میں شرکت کے لئے کراچی آتے۔
مسلمان لڑکیوں کو تعلیم دینے کے لئے ان
کے مکان پر بھی کلاسیں ہو تی تھیں۔ لیڈی ہدایت اللہ نے پورے سندھ میں خواتین کے
اجتماعات کئے۔ سندھ میں خواتین کا پہلا اجتما ع کراچی گاندھی گارڈن میں ہوا۔ ان
تینوں خواتین نے برطانیہ کے خلاف جلوس کی قیادت کی۔ لیڈی صغریٰ ہدایت اللہ اور
بیگم خیر النساء شعبان نے لاہور میں جلوس کی قیادت بھی کی اور سیکریڑیٹ کی عمارت
پر مسلم لیگ کا جھنڈا لہرانے میں کا میاب ہو گئیں۔
پنجاب سے بیگم جہاں آرا شاہ نواز نے
لندن میں منعقد ہونے والی تینوں گول میز کا نفرنسوں میں خواتین کی نمائندگی کی اور
پہلی خاتون تھیں جنہوں نے لندن کے گلڈہال میں تقریر کی۔ آپ نے دور دور تک سفر بھی
کیا اور دوسرے ممالک کے لوگوں سے بات کی وضاحت کی کہ مسلمان ہندوستان میں ایک
علیحدہ ریاست کیوں چاہتے ہیں؟ دوسری خواتین، جنہوں نے آزادی کی جدوجہد میں نمایاں
کردار ادا کیا وہ بیگم اقبال حسین، بیگم سلمیٰ تصدق حسین، گیتی آرا بشیر احمد،
بیگم شائستہ اکرام اللہ، بیگم وقار النساء نون، بیگم نواب محمد اسما عیل،
نورالصباء اور حیدرآباد سندھ کی فاطمہ شیخ ہیں۔
Comments
Post a Comment