سندھ میں کوئلے کے ذخائر
سندھ کی سرزمین کو جہاں قدرت نے دوسری
کئی نعمتوں سے نوازا ہے وہاں یہ معدنی وسائل میں بھی مالا مال ہے۔ سندھ میں جپسم،
تیل، گئس، گرینائیٹ، کوئلہ اور دوسری کئی اشیاء ملتی ہیں۔ کھیرتھر کے پہاڑوں سے
کارونجھر کے خوبصورت پہاڑوں تک، کشمور سے کراچی تک، سندھ کے کچے، پکے، کوہستان اور
تھر کے علاقوں میں معدنیات کے بڑے ذخائر موجود ہیں۔
تمام معدنی اشیاء میں کوئلہ بڑی اہم
معدنیات ہے۔ کوئلے کے بڑے ذخائر پہاڑی کانوں اور زمین کے سینے میں دفن ہیں۔
یہ وہ اہم معدنی ذرائع ہیں جو آج کل کی
تیزی سے بڑھنے والی دنیا کی آبادی کو توانائی فراہم کر سکتی ہے اور جلانے کی
ضروریات کو بھی پورا کر سکتی ہے۔
سندھ میں کوئلہ اس سے پہلے ضلعہ دادو کے
”لاکھڑا“ میں اور ضلعہ ٹھٹہ کے ”سونڈا اور میٹینگ“ میں ملتا تھا، مگر حال ہی میں
ضلعہ تھر میں کوئلے کے بہت بڑے ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔
انگریزوں کے دور میں پہلی بار کراچی میں
1859 ء میں اسٹیم پر چلنے والا انجن متعارف کرایا گیا تھا۔ اس سے دو سال قبل دادو
کی تحصیل کوٹڑی میں ”لاکھڑا“ کے مقام پر کوئلہ ملا تھا۔
انگلینڈ میں اسی کوئلہ پر تحقیق کرنے کے
بعد جب دریائے سندھ میں اسٹیم پر چلنے والے آگبوٹ (کشتی) کو کوئلہ پر آزمایا گیا
تو اس کے دو رس نتائج نکلے تھے۔ ان تجربات نے سندھ سے ملنے والے کوئلہ کی طاقت کا
سکہ جمادیا تھا۔ آگبوٹ ایک گھنٹہ چلا اور اس نے آٹھ میل کا فاصلہ طے کیا۔ اُس وقت
ایک مقامی اخبار نے لکھا تھا: ”وہ وقت دور نہیں جب سندھ سے ملنے والا کوئلہ پورے
ہندوستان کی ضروریات پوری کرے گا“۔
اس کے بعد ماہرین نے زمین میں ڈرلنگ کر
کے کوئلہ کے متعلق مزید معلومات حاصل کیں۔ دوسری طرف گذشتہ صدی کی ساٹھ کی دہائی
میں تھر کے گاﺅں ”کارنہں“ میں کوئلہ ملنے کی اطلاع ملی۔ وہاں لوگوں کو پانی کا
کنواں کھودتے ہوئے سیاہ رنگ کی مٹی ملی، جس کو آگ نے پکڑلیا۔ دیہاتیوں نے رن کچھ
میں موجود انگریز کے پولیٹیکل ایجنٹ کرنل ریکس کو اطلاع دی اور معاوضہ طلب کیا،
لیکن ان کی بات پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔ سوا صدی گذرنے کے بعد آج یہ حقیقت
ثابت ہو چکی ہے کہ اسی مقام پر کوئلہ موجود تھا۔
1985 ء میں کراچی میں”سندھ کول سمپوزیم“کرایا گیا جس
میں ماہرین نے مشورہ دیا کہ او۔ ڈی۔ ای اور یونیسف نے تھرپارکر میں جو پانی کے
کنویں کھودے ہیں ان کی معلومات کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت کو بھی تھر میں کوئلہ
کی تلاش میں کھدائی کا کام شروع کرانا چاہئیے۔
اسی طرح ”جیالاجیکل سروے آف پاکستان“
(جی۔ سی ۔ پی) اور امریکہ کی ”یو۔ ایس۔ جی۔ پی“ (جیالاجیکل سروے آف یونائیٹڈ
اسٹیٹس) نے مل کر فروری 1992ء سے جون 1993ء تک تھر میں کوئلے کی تلاش شروع کردی،
خوش قسمتی سے انہیں تیس میٹر موٹی تہہ کوئلے کی، تحصیل مٹھی کے شہر اسلام کوٹ سے
15 میل دور گاﺅں ”تھہاریہ کا کنواں“ سے ملی جو ”کارنہں“ کے گاﺅں سے 12 کلو میٹر
دور ہے۔
اس وقت تھرپارکر سے کوئلے کے تین مختلف
ذخائر ملے ہیں، جن میں ایک کھرب ٹن سے بھی زیادہ کوئلہ ہے اور جس علائقے سے کوئلہ
ملا ہے وہ علائقہ دس ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ 1993ءکے آخر میں ”یو۔ ایس۔
جی ۔ ایس“ کو 87 ارب ٹن کوئلہ ہاتھ لگا مگر اب یہ ذخیرہ بڑھ گیا ہے اور مزید امکان
ہے کہ کھدائی کے دوران اور بھی ذخائر ہاتھ آجائیں۔ کوئلے کی توانائی کے ذرائع
بڑھانے کیلئے سندھ حکومت کی طرف سے ”سندھ کول اتھارٹی“ اور ”یو ۔ ایس۔ جی۔ ایس“ نے
تھر میں کوئلہ پر بجلی گھر قائم کرنے کیلئے غور و حوض کیا۔ اس کے بعد وفاقی حکومت
نے دنیا کے مختلف ممالک کی کمپنیوں کے ساتھ معاھدے کئے، جس کے مطابق تھر میں
ابتدائی طور پر 1320 میگاواٹ ”بجلی گھر“ بنانے کا منصوبہ تیار کیا گیا اور 19
جنوری 1995ء کو تھر میں کوئلے کی کان کی کھدائی کا افتتاح کیا گیا۔
یہ بات عالم آشکار ہے کہ تھر کی زمین
اور ریت بہت زرخیز ہے۔ تھر میں کوئلے کے ذخائر کے نیچے چینی مٹی اور گرینائیٹ کے
بھی بڑے ذخائر ملے ہیں۔ اس سے پہلے کارونجھر پہاڑ سے چینی مٹی اور گرینائیٹ ملے
ہیں۔
سندھ کا کوئلہ ملک کی بڑی دولت ہے اور
بجلی پیدا کرنے اور جلانے کیلئے بہت اہم ہے۔ یہ کوئلہ سندھ اور ملک کے دیگر
علائقوں سے ملنے والے کوئلے کے مقابلے میں اعلیٰ کوالٹی کا ہے۔ اس سے بہت آمدنی
ہوگی۔ پورے ملک میں اس وقت کوئلہ 27 جگہوں سے ملتا ہے، جن میں چھ مقامات سندھ میں
ہیں اور ان چھ ذخائر کی پیداوار باقی 21 ذخائر سے زیادہ ہے۔ سندھ کے کوئلے سے بجلی
کی توانائی دیگر مقامات سے ملنے والے کوئلے کے مقابلے میں زیادہ ہوگی۔ ماہرین کی
راءہے کہ سندھ سے ملنے والا کوئلہ پاکستان کی روزانہ مجموعی پیداوار 42, 37 فیصد
ہے اور یہ کوئلہ کئی سو سالوں تک ملک کی بجلی اور جلانے کی ضروریات پوری کر سکتا
ہے۔
تھر کے لوگ سیدھے سادے (مارو) ہیں اور
ہمیشہ ﷲ کے آسرے (بارش کی امید) پر زندھ ہیں۔ قدرت نے ان کی زمین سے کوئلہ کی نعمت
انہیں عطا کی ہے، انشا ﷲ وہ وقت دور نہیں جب تھر کے لوگ بھی ملک کے دیگر لوگوں کے
برابر آجائیں گے اور انتہائی پستی اور غربت سے چھٹکارا حاصل کرلیں گے۔
Comments
Post a Comment