موبائل فون کی عادی - نشہ یا مرض
راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر موبائل چیک کرنا
ہر وقت آن لائن رہنے کی عادت
آج کی دنیا میں امیر ہوں یا غریب، شہروں میں رہنے والے ہوں یا دیہات میں، کوئی بھی موبائل اور انٹرنیٹ کے بغیر نہیں رہ سکتاہے۔ آج کی نوجوان نسل کو ویسے بھی ’’ انٹرنیٹ جنریشن ‘‘ کہا جاتاہے، چاہے وہ امریکا جیسے ملک میں رہتے ہوں یا پھر نائجیریا میں۔
موبائل فون کے بے جا استعمال سے انزائٹی، بے چینی، نیند کی کمی، گھبراہٹ، انسومنیا، ہاضمے کی خرابی، نفسیاتی عوارض اور غیر صحت مند طرزِ زندگی جیسے مسائل سامنے آسکتے ہیں۔
ہر وقت آن لائن رہنا، راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر موبائل چیک کرنا اور اپنے اسٹیٹس پر لوگوں کے کمنٹس اور لائیکس کے بارے میں سوچنا، آج کل نوجوان نسل اسی عادت میں مبتلا ہے۔
بعض اوقات مطالعہ کرتے ہوئے یا امتحانات کی تیاری کے دوران بھی موبائل سے نکلنے والی آوازیں توجہ کو منتشر کردیتی ہیں۔ بس پھر طالب علم کتاب ایک طرف رکھتا ہے اور موبائل کی دنیا میں گُم ہو جاتا ہے۔
Archives of Pediatrics Adolescent Medicine کی شائع ہونے و الی ایک رپورٹ کے مطابق وہ ٹین ایجرز جو انٹرنیٹ استعمال کرنے یا آن لائن رہنے کے کی عادت میں مبتلا ہیں، ان میں ہروقت آن لائن نہ رہنے والے بچوں کے مقابلے میں ڈپریشن کا خطرہ بڑھ جاتاہے۔
غیر معمولی حد تک آن لائن رہنے کی عادت کو پیتھالوجیکل (pathological) کہا جاتا ہے، یعنی یہ ان کیلئے ایک نشہ یا مرض ہے۔
سڈنی ،آسٹریلیا کے اسکول آف میڈیسن اور چین میں گوانگ ژو یونیورسٹی کے اشتراک سے چین میں ایک حالیہ سروے میں انٹرنیٹ کے بیماری کی حد تک زیادہ استعمال اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ذہنی عوارض کا طویل عرصے تک مشاہدہ کیا گیا۔
اس سروے میں ایک ہزار سے زائد وہ نوجوان شامل تھے، جن کی اوسط عمر 15 سال کے قریب تھی۔ اس ریسرچ سے پتہ چلا کہ 13 سے 19 سال تک کے جولڑکے اور لڑکیاں نشے کی حد تک انٹرنیٹ استعمال کرتے تھے، انھیں ڈپریشن کے باعث سماجی اور خاندانی رشتوں کے معاملات میں مشکلات کاسامنا کرنا پڑا، ان کی صحت خراب رہنے لگی، وہ بدمزاجی کا مظاہر ہ کرنے لگے اور دیگر نفسیاتی مسائل کا بھی شکار ہونے لگے۔ سروے کے نتائج کے مطابق ایسے نوجوانوں میں بے چینی بڑھ جاتی ہے۔
ایک ہزار سے زائد ان نوجوانوں سے جب نشے کی حد تک اپنائی جانے والی آن لائن رہنے کی عادت کے بارے میں سوال کیا گیا تو ان میں سے62فیصد نے اپنا جواب انٹرنیٹ لکھا۔ اس وقت اس عادت کو بیماری کا نام نہیں دیا گیا تھا لیکن9ماہ بعد اس سروے کے شریک نوجوانوں کا ڈپریشن اور نفسیاتی بے چینی کے حوالے سے دوبارہ معائنہ کیا گیا تو 8فیصد نوجوان بیماری کی حدتک نفسیاتی بے چینی کا شکا ر پائے گئے۔
انٹرنیٹ کم استعمال کرنے والے نوجوانوں میں ڈپریشن کا امکان دیگر کے مقابلے میں کئی گنا کم پایا گیا۔
ماہرین کے مطابق فون کی علت میں پڑے زیادہ تر ایسے افراد ہیں، جو کمزور سماجی تعلقات رکھتے ہیں اور ان کی عزت نفس بھی کم ہے، اسی لیے وہ مسلسل دوسروں کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں۔
موبائل کے مضر اثرات کے بارے میں میڈیکل سائنس کا کہناہے کہ فون کے ذریعے مسلسل رابطے میں رہنے کا مطلب یہی ہےکہ وہ اپنی صحت کا خیال نہیں رکھ رہے۔
مثال کے طور پر بہت ساری تحقیقات بتاتی ہیں کہ موبائل سے نکلنے والی شعاعوں کی وجہ سے نوجوانوں کی جین ریگولیشن(gene regulation)، سماعت اور بصارت کے مسائل میں تبدیلی آرہی ہے۔ ان شعاعوں کی وجہ سے قورنیہ اور لینس ٹشوز پر دبائو بڑھ رہا ہے۔ انہیں سردرد، کانوں میں گرمائش کااحساس، یادداشت کا گم ہونا اور تھکن جیسے عوارض ہونے کا امکان ہے۔ ایک اور تحقیق کے مطابق موبائل کا بہت زیادہ استعمال برین ٹیومر کا بھی باعث بن سکتاہے۔
نفسیاتی حوالے سے بات کی جائے تو ٹیکنالوجی نے حقیقی سماجی رشتوں اور انفرادی انسانی فلاح سے ہٹا کر ہمیں تنہائی اور ڈپریشن کا شکار بنادیاہے۔
ہر چیز کی زیادتی ویسے ہی مشکلات لے کر آتی ہے۔ اسی لیے ہر وقت آن لائن رہنے اور موبائل پر مصروف رہنے سے بہتر ہے کہ اعتدال کا راستہ اپنایا جائے۔ اس ٹیکنالوجی کا استعمال محدود کریں اور صرف ضرورت کے وقت اسے استعمال کریں۔ غیرحقیقی دوستی اور رابطے رکھنے سے بہتر ہےکہ حقیقی طور پر دوستوں اور احباب سے بالمشافہ ملاقات کریں، آپس میں بات کریں اور حقیقی زندگی کا لطف اٹھائیں۔
ذرا اپنے موبائل سے نظر ہٹائیں تو دیکھیں آسمان کی وسعت میں کتنا سکون چھپا ہے۔ باہر نکلیں تو ٹھنڈی ہوائیں آپ کے دل و دماغ کو معطر کردیتی ہیں۔ قدرتی فضا میں چند گھنٹے گزار کر دیکھیں تو ہر قسم کی انزائٹی اور ڈپریشن دور ہو جائے گا لیکن خیال رہے کہ اس کیفیت اور ان احساسات کو اپنا اسٹیٹس بنانے کیلئے پھر سے موبائل مت اٹھا لیجئے گا۔
Comments
Post a Comment