قوموں کے عروج اور زوال - حسن نثار


کبوتر کے بارے تو میں نہیں جانتا کہ بلی کو دیکھ کر سچ مچ آنکھیں بند کر کے خود کو محفوظ سمجھنے لگتا ہے یا نہیں لیکن اپنے بارے مجھے سو فیصد یقین ہے کہ ہم لوگ خطرہ دیکھ کر آنکھیں موند لینے میں یکتا ہیں۔

چشم بددور
 ·                              آج کل ہم سب ملا کر تقریباً 22کروڑ بنتے ہیں اور قدم قدم پر قیامت اور کہرام کا سا سماں ہے۔
·                              پینے کے صاف پانی سے لے کر دو وقت کی روٹی روزگار تک خواب سراب ہو چکے

تو میں سوچتا ہوں کہ:
·                              یہی 22کروڑ منہ اور پیٹ چند سال بعد جب 32کروڑ ہوں گے تو ہو گا کیا؟
·                              زندگی کس بھائو بک رہی ہو گی؟
·                              خریدار کون ہوں گے اور ہر بازار میں کتنے بازار مصر ہوں گے؟
·                              نیلام گھروں میں کس کس شے کی بولی لگ رہی ہو گی؟
  
اصل بات یہ کہ:
قوموں کے عروج اور زوال کا گمشدہ ’’خلاصہ‘‘ بالآخر مجھے مل گیا ہے جس کے مطابق کسی بھی قوم کے عروج یا زوال کا قطعاً کوئی تعلق:
·      نہ اس کے مذہب سے ہے۔
·      نہ رنگ نسل اور زبان سے ہے۔
·      نہ کسی مخصوص خطے یا علاقہ سے اور
·      نہ ہی اس بات سے کہ وہ سولائزیشن میسو پوٹیمیا یا مصر وغیرہ کی طرح کتنی قدیم ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ:
اگر مندرجہ بالا کا عروج و زوال کی سانپ سیڑھی سے کوئی لینا دینا نہیں تو پھر وہ کون سے عوامل ہیں جو قوموں کے عروج و زوال، عزت و ذلت میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔
تو شاید آپ کو حیرت ہو کہ:
صرف نو (9) انتہائی ’’معمولی‘‘ اور’’گھٹیا‘‘ قسم کی باتیں اور رویے ہیں جو قوموں کو بلندی کی طرف لے جاتے ہیں یا پستی میں غرق کر دیتے ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ:
انہیں پڑھتے ہوئے ہم میں سے اکثر کو یقین نہیں آئے گا صرف ہنسی آئے گی لیکن میں نے اپنی بساط مطابق جتنا بھی سوچا، اتنا ہی قائل ہوتا گیا کہ اس نو نکاتی ایجنڈے کے علاوہ باقی سب کچھ ثانوی ہے۔
میں نے اس پر بھی سوچا کہ:
اس وقت جو اقوام دنیا کی ’’امامت‘‘ کر رہی ہیں، ان میں یہ خصوصیات پائی جاتی ہیں یا نہیں؟
تو میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ آج کی ہر باعزت، باوقار، لیڈنگ قوم میں یہ خصوصیات بدرجۂ اتم موجود ہیں۔

پھر میں نے اس بارے بھی غور کیا کہ:
جب مسلمان عروج پر تھے تو کیا ان میں یہ خصوصیات موجود تھیں، بالکل موجود تھیں اور بدرجۂ اتم موجود تھیں۔
اب چلتے ہیں ان نو (9)پوائنٹس کی طرف اور دیکھتے ہیں کہ ہمارے اندر ان میں سے کوئی ایک خصوصیت بھی موجود ہے۔

1.   اخلاقیات
1.    Ethics
2.   دیانتداری
2.    Integrity / Honesty
3.   احساس ذمہ داری
3.    Sense Of Responsibility
4.   قوانین و قواعد کا احترام
4.    Respect To The Laws & Rules
5.   دوسروں کے حقوق کا احترام
5.    Respect To The Rights Of Others
6.   اپنے کام سے محبت
6.    Work Loving
7.   بچت و سرمایہ کاری
7.    Savings & Investments
8.   کوئی کمال کرنے کی خواہش
8.    Will For Super Action
9.   وقت کی پابندی
9.    Punctuality
  
کسی فلاسفر نے کہا تھا کہ:
میری زندگی کا ایک بڑا حصہ اس جدوجہد میں صرف ہو گیا کہ میں اپنے اندر سے وہ کوڑا کرکٹ نکال کر خود کو نارمل اور نیوٹرل کر سکوں جو مختلف عنوانات کے تحت میرے اندر انجیکٹ کر دیا گیا تھا
یعنی بے ہودہ سیکھے ہوئے کو ’’ان سیکھا‘‘ کر کے ’’زیرو میٹر‘‘ ہونا تاکہ بندہ سوچنے کے عمل کے ساتھ پورا پورا انصاف کر سکے۔

میں جانتا ہوں کہ:
یہ ایک انتہائی مشکل، پیچیدہ بلکہ جان لیوا کام ہے۔ خود کو ہر طرح کے تعصبات سے مکمل طور پر پاک کر کے سو فیصد میرٹ پر مستحکم رہنا کوئی معمولی قسم کا چیلنج نہیں۔

اپیل صرف اتنی ہے کہ خود کو زیادہ سے زیادہ ’’غیرجانبدار‘‘ کر کے غور کریں کہ:
اگر کوئی قوم مندرجہ بالا 9 پوائنٹس کو ان کے وسیع تر مفہوم کے ساتھ پریکٹس کرے تو کیا دنیا کی کوئی طاقت اس کے غلبہ کو روک سکتی ہے؟

پھر اس پر بھی غور فرمائیں کہ:
کیا ان میں سے کوئی ایک ’’معمولی ترین‘‘ بات بھی ایسی ہے جو ہماری روزمرہ پریکٹس کا حصہ ہے؟
کمال ہے کہ نماز کی دیگر تعلیمات میں سے ایک ’’وقت کی پابندی‘‘ بھی ہے لیکن کون ہے جو عام عملی زندگی میں بھی اسے ضروری سمجھتا ہو اور اگر مزید غور کریں تو ان 9کے 9 پوائنٹس میں سے ایک بھی ایسا نہیں جس کی دین کامل ہمیں تلقین نہ کرتا ہو ۔
مثلاً:
کم تولنا، جھوٹ بولنا، ملاوٹ کرنا، غیبت کرنا، حسد کرنا، خوشامد کرنا وغیرہ وغیرہ

Comments

Popular posts from this blog

اسان جو وطن (پيارو پاڪستان)

وطن جي حب

محنت ۾ عظمت