بے روزگاری
لوگ کہتے ہیں کہ:
روزگار کے مواقعوں
کو چند شہروں تک محدود رکھنے کے سبب، ملک کے چھوٹے بڑے شہروں اور دیہی علاقوں میں بے
روزگاری بڑھی ہے۔
ہمارا اقتصادی،
سماجی اور سیاسی نظام بے روزگاری کو پیدا کرنے کا سبب بنا ہے۔
لیکن کیا ہم اپنے
نظام تعلیم کو بھول جائیں؟
ستر بہتر سال گزر
جانے کے باوجود ہم اپنے لئے ایک بہتر نظام تعلیم وضع اور اختیار کرنے میں ناکام
رہے ہیں۔
موجودہ نظام تعلیم
تو انگریزوں نے اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے رائج کیا تھا۔ جو کلرکوں کی فوج تو
پیدا کرسکتا ہے، لیکن ملک کو چلانے والے ذہن پیدا نہیں کر سکتا۔
لہٰذا بے روزگاری
پر قابو پانے کے لئے ہمیں ایک ایسا بامقصد نظام تعلیم رائج کرنا ہوگا جو ذہنی
صلاحیتوں کو اجاگر کر سکے۔ جس کے ذریعے معاشی مفادات حاصل ہو سکیں کیوں کہ موجودہ
نظام تعلیم فرد کی معاشی ضروریات کی تکمیل کرنے سے قاصر ہے۔
ہمارے نظام تعلیم
کو جدید ضروریات کے مطابق ڈھالنے کی کوششوں پر بھی توجہ دی جانی چاہیے۔ نصاب تعلیم
میں نظری تعلیم کے ساتھ ساتھ عملی تعلیم کی گنجائش بھی رکھی جائے خصوصاً
· ساتویں کلاس سے میٹرک تک، نصاب میں بجلی
کے آلات کی مرمت اور دیکھ بھال کے علاوہ ٹائپنگ وغیرہ کو شامل کیا جائے۔
· انٹر میڈیٹ کے نصاب میں شارٹ ہینڈ ،
ائرکنڈیشن ریفریجٹر اور کمپیوٹر کے مضامین رکھے جائیں۔
ایک اور اہم بات
یہ ہے کہ نوجوانوں کو خود بھی خوابوں کی دنیا سے نکل کر عملی دنیا کے تقاضوں پر
دھیان دینا چاہیے۔ اعلیٰ ملازمتوں کے لئے اعلیٰ صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
لیکن گھر چلانے
اور اپنا خرچ خود اٹھانے کے لئے چھوٹی ملازمت بھی بہت ہے۔ اس وقت معاشرے میں ڈگری
یافتہ نوجوانوں کی تعداد بہت بڑھ چکی ہے۔ اگر ہمارے نوجوان چھوٹی ملازمتوں کو
اختیار کرنے میں شرم اور جھجک محسوس نہ کریں تو بے روزگاری بڑی حد تک ختم ہو جائے
گی۔
Comments
Post a Comment