راجہ داہر کی دیبل میں شکست کیوں ہوئی؟



راجہ داہر کی دیبل میں شکست کیوں ہوئی؟

راجہ داہر کو جب پتہ چلا کہ دیبل پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا ہے تو وہ بہت غصے میں تھے، اتنا زیادہ غصے میں تھے کہ کوئی بھی اُن کے سامنے جانے کی ہمت نہیں کرتا تھا۔ ایسی ہمت صرف اور صرف اس کا عقلمند وزیر بدہیمن ہی کرسکتا تھا۔ بدہیمن ہمت کر کے راجہ داہر کے سامنے چلا گیا۔

راجہ داہر:
بدہیمن کیا لینے آئے ہو؟
کہاں گئی تمہاری عقلمندی؟
بدہیمن:
مہاراج!۔۔۔۔۔
ہماری فوج نے عرب کے حملہ آوروں کو دو بار شکست دی تھی، اس سے ہماری فوج نے یہ سمجھ لیا تھا کہ اُسے کسی میدان میں شکست تو ہو ہی نہیں سکتی، ہماری فوج پر فتح کا نشہ سوار ہوگیا تھا، مسلمانوں کے دباؤ کو ہمارے سپاہی برداشت نہ کر سکے۔
راجہ داہر:
مجھے بتایا گیا ہے کہ دیبل کا جھنڈا گر پڑا تھا ۔۔۔۔
بدہیمن:
مہاراج ۔۔۔۔۔
عرب کے ان مسلمانوں نے مندر کے گنبد پر پتھر پھینکے تھے، گنبد ٹوٹا تو جھنڈا گر پڑا، ہماری قسمت اس جھنڈے کے ساتھ وابستہ ہے، اگر وہاں اس سے چار گنا زیادہ فوج ہوتی تو وہ بھی بھاگ جاتی۔
مہاراج ۔۔۔۔۔
سوال آپ کے راج بھاگ کا ہے، اگر مسلمان اسی طرح فتح پر فتح کرتے آئے تو اپنا انجام سوچ لیں، آپ تخت سے تہہ خانے تک پہنچ جائیں گے۔
آپ نے مجھ پر ہمیشہ اعتماد کیا اور مجھے عقلمند سمجھا ہے، اور آپ کو میری وفاداری پر بھی شک نہیں تو میں آپ سے امید رکھتا ہوں کہ میری کسی بات سے آپ خفا نہیں ہوں گے۔
راجہ داہر:
نہیں ہونگا ۔۔۔
تم بات کرو اور فوراً کرو ۔۔۔
بدہیمن:
مہاراج ۔۔۔۔۔
دیبل پر قبضہ ہو گیا ہے تو یوں سمجھو کہ دشمن نے ہماری شہ رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے۔
ہماری شکست کی اصل وجہ یہ ہے کہ:
ہم نے اپنی قسمت بےجان چیزوں کے ساتھ وابستہ کر دی ہے، وہ ایک جھنڈا تھا جو گر پڑا تھا وہ کپڑے کا ٹکڑا تھا اور ایک بانس کے ساتھ بندھا ہوا تھا۔
پنڈتوں نے عوام کے دلوں میں یہ عقیدہ ڈال دیا ہے کہ:
·       یہ جھنڈا دیوتاؤں نے اپنے ہاتھوں سے یہاں لہرایا تھا۔
·       یہ جھنڈا گِر پڑا تو سمجھو ہم سب گِر پڑے۔ اور
·       دیوتاؤں کا قہر آ گیا۔
اگر پنڈتوں نے اپنی عوام اور فوج کے دلوں میں یہ عقیدہ ڈال دیا ہوتا کہ:
·       یہ جھنڈا ہماری عظمت اور عزت کا نشان ہے، دشمن اس تک نہ پہنچنے پائے۔
·       اگر جھنڈے کو ہم یہ درجہ دیتے تو دیبل کی فوج اور وہاں کے لوگ اپنی جانیں لڑا دیتے۔
راجہ داہر:
انہوں نے جانے لگا دی تھیں۔۔۔
وہ سب دروازے کھول کر باہر نکلے اور دشمن پر حملہ کردیا تھا۔
بدہیمن:
مہاراج ۔۔۔۔۔
میں جانتا ہوں ۔۔۔
وہاں سے آئے ہوئے دو آدمیوں میں سے میں نے پوری تحقیقات کی ہے، ہماری فوج اور دیبل کے شہریوں کا باہر نکل کر مسلمانوں پر جو حملہ کیا تھا وہ حملہ نہیں تھا وہ تو خودکشی کی کوشش تھی۔
راجہ داہر:
یہ بھی عقیدہ ہے کہ جھنڈا گر پڑے تو دشمن پر اندھا دھند ٹوٹ پڑو اور مارے جاؤ۔
بدہیمن:
وہ تو مارے جاچکے ہیں۔۔۔
راجہ داہر:
میں دیول کے حاکم کو اور وہاں کے فوجی حاکم کو بھی زندہ رہنے کا حق نہیں دے سکتا، معلوم نہیں وہ کہاں ہے؟
بدہیمن:
مہاراج ! ۔۔۔۔۔
آپ  کو ایسی غلطی نہیں کرنی چاہیے۔۔۔
انہیں زندہ رہنے دیں اور انہیں شرمسار کریں، وہ کوشش کریں گے اور اگلی لڑائی میں اپنے چہروں سے شکست کا داغ دھو ڈالیں گے۔
لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ:
اگر ان کے دلوں پر یہ دہشت طاری رہی تو دیول کا جھنڈا گر پڑا تھا اس لیے ان پر دیوتاؤں کا قہر گرتا رہے گا، تو وہ ہر میدان میں شکست کھائیں گے ۔۔۔
راجہ داہر:
کیا میں انہیں یہ کہو کہ:
·       وہ اپنا مذہب تبدیل کرلیں۔۔۔
·       مسلمانوں کا مذہب سچا ہے ؟ ۔۔۔
جس کے ماننے والوں نے دیبل کا جھنڈا گرا کر ہمارے دیوتاؤں کو جھوٹا ثابت کردیا ہے، بدہیمن تم دانشمند ہو تم میں مجھ سے زیادہ عقل ہو سکتی ہے، لیکن میرا یہ عہد سن لو کہ سندھ میں اسلام نہیں آئے گا۔
بدہیمن:
مہاراج ! ۔۔۔۔۔
وہ تو آ گیا ہے ۔۔۔
جن عربوں کو آپ نے اپنے سائے اور شفقت میں رکھا ہوا ہے وہ ہمارے نہیں اپنے مذہب کے لوگوں کے ہمدرد ہیں۔
کیا آپ نے سوچا ہے کہ مسلمانوں کے سالار کو کس نے بتایا تھا کہ:
اس جھنڈے کو گرا دو تو دیبل والوں کے پاؤں تلے سے زمین نکل جائے گی، شہر کے دروازے بند تھے اندر سے باہر کوئی نہیں گیا، یہ ایک راز تھا جو ان عربوں نے حملہ آور سالار کو دیا ہے، جنہیں ہم نے مکران میں آباد کر رکھا ہے ۔
راجہ داہر:
ان کے خلاف میں اب کیا کرسکتا ہوں؟
بدہیمن:
مہاراج ! ۔۔۔۔۔ ۔۔۔
انہیں اپنا دوست بنانے کی کوشش کریں ان سے ایک راز لینے کی کوشش کریں، ان سے پوچھیں کہ توپ کس طرح بنائی جاتی ہے؟
ہوسکتا ہے انھیں میں توپ بنانے والے ایک دو کاریگر ہوں، اگر ہمیں دس بارہ توپیں مل جائیں تو ہم مسلمان فوج کے پڑاؤ پر رات کے وقت پتھر اور آگ کے گولے برسا سکیں گے، جب ان کی فوج ایک جگہ سے کوچ کرے گی تو ہم انھیں اگلے پڑاؤ تک نہیں پہنچنے دیں گے۔
راجہ داہر:
یہ راز تم حاصل کرنے کی کوشش کرو۔۔۔
اگر ان میں کوئی کاریگر نہ ملے تو ان میں سے ایسے آدمی تیار کرو جو عرب کی فوج میں ان کے وفادار بن کر شامل ہو جائیں اور توپوں کو اچھی طرح دیکھ لیں کہ اس کی ساخت کیا ہے، اور کس لکڑی سے بنتی ہیں، میں توپ بنانے والے کو اتنا انعام دوں گا جو اس کی سات پشتوں میں ختم نہیں ہوگا۔


Share on WhatsApp

Comments

Popular posts from this blog

اسان جو وطن (پيارو پاڪستان)

وطن جي حب

محنت ۾ عظمت