موہن جو دڑو کی دریافت کو 100 سال مکمل
موہن
جو دڑو کی دریافت کو 100 سال مکمل
(سندھ
کی تہذیب کی سب سے پرانی نشانی)
· موہن جو دڑو کی
دریافت کو 100 سال ہوگئے مگر آج بھی دنیا بھر کے محقق اس قدیم شہر کی بول چال
سمجھنے میں ناکام رہے ہیں۔
· موہن جو دڑو شہر
قریباً 3700 سال تک زمین میں دفن رہا اور بالآخر 1920 میں اس کا سراغ لگایا گیا۔
· آرکیالوجیکل سروے
آف انڈیا کے عہدیدار آر ڈی بینرجی نے 1920 میں یہ ٹیلہ دریافت کیا۔
· آرکیولاجیکل سروے
آف انڈیا کے سربراہ سر جان مارشل کی سربراہی میں آثار قدیمہ کی کھدائی کا کام ہوا
اسی بنا پر اس شہر کی دریافت ان سے منسوب ہے۔
سندھو تہذیب کے
رسم الخط 'انڈس سکرپٹ' کی ضابطہ کشائی کے لیے موہن جودڑو کے آثارِ قدیمہ سے متصل
میوزیم میں عالمی کانفرنس کا انعقاد حکومت سندھ کے زیرِ انتظام کیا گیا۔
کانفرنس میں جاپان
سے آئے ڈاکٹر ایومو کوناسوکاوا، جرمنی سے ڈاکٹر آندریاس فولس اور ڈاکٹر مائیکل
جانسین، ڈنمارک سے ڈاکٹر سٹیفن ٹریپ لارسن اور ڈاکٹر صدف مرزا، اٹلی سے ڈاکٹر ڈینز
فرینز، امریکہ سے ڈاکٹر گریگ جیسمن اور ڈاکٹر جوناتھن مارک کینائر اور فرانس سے
آئے ڈاکٹر سٹیفن ڈیوڈوئگنن تحقیقی مقالے پیش کئے۔
ڈاکٹر
ڈینز فرینز (محقق اور ماہر آثار قدیمہ ۔ اٹلی)
موہن جو دڑو سے
ملنے والی مہروں اور ٹیبلیٹ دیگر تمام تہذیبوں سے یکسر مختلف ہیں جس وجہ سے ان کو
سمجھنے میں ناکامی ہوئی ہے۔
’موہن جو دڑو سے
ملنے والے نقوش منفرد اور خود ساختہ ہیں اور بعد میں آنے والی تہذیبوں میں ان کا
تسلسل نہیں ملتا۔ کھدائی کے دوران ملنے والی اشیاء سے یہی لگتا ہے یہاں کے لوگ
تفصیلی لکھت پڑھت کے قائل نہیں تھے اور مختصر ترین اشاروں میں پیغام رسانی کرتے
تھے۔‘
’ایسا
تو ممکن نہیں کہ اس کانفرنس میں تمام محقق رسم الخط کے حوالے سے متفق ہوجائیں تاہم
آئندہ کی تحقیق کے لیے ضابطے کا تعین ہو جائے گا اور اس پراسرار اور منفرد زبان کو
سمجھنے میں مدد ملے گی۔‘
’ابھی یہ واضح
نہیں کہ زبان کے استعمال کی جو علامتیں موہن جودڑو سے ملی ہیں وہ مکمل ہیں یا
نہیں۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ یہاں کے لوگ کسی ایسی چیز پر خط و کتابت کرتے ہوں جو
وقت کے ساتھ فنا ہوگئی، جیسے درختوں کی چھال، جانوروں کی کھال وغیرہ۔‘
ڈاکٹر
جانتھن مارک کینائر (ماہر آثار قدیمہ ۔ امریکہ)
’سندھو تہذیب کی
درجہ بندی کی ضرورت ہے کیوں کہ مختلف ادوار اور ریجنز میں مختلف زبانیں رائج رہی
ہیں، موہن جو دڑو میں رائج انڈس سکرپٹ دراصل ان زبانوں کی علامتی نشان بندی ہے۔‘
’انڈس
سکرپٹ ایک ورسٹائل سکرپٹ ہے جو معاشرے کے تمام پہلوؤں میں رائج تھا۔ ہاں یہ ضرور
ہے کہ زبان اشرافیہ کے زیرِ استعمال تھی تبھی کچھ گھروں سے تو علامتی نشان بہتات
میں ملتے ہیں لیکن متعدد گھروں سے ایک بھی نہیں ملتا۔ اشرافیہ زبان کو اپنے قابو
میں رکھتی تھی جس سے اسے طاقت کے استعمال میں آسانی ملتی تھی، اسی وجہ سے زبان ختم
بھی ہوئی کیوں کہ عام عوام تک اس کی رسائی نہ تھی۔‘
’انڈس
سکرپٹ درحقیقت زبان کی علامت ہے اور یہ زبانیں ایک سے زائد ادوار اور علاقوں کی ہو
سکتی ہیں جسے گریٹر انڈس ریجن کہا جاتا ہے۔ ان زبانوں میں دوڑاوڑ، آسٹرو ایشیاٹک
(مندہری)، سائنو تبتین، انڈو آرین، اور کچھ نا معلوم زبانیں شامل ہیں۔
موہن جودڑو میں
استعمال ہونے والی زبان کی علامتوں یا رسم الخط کے حوالے سے مختلف محققین کا الگ
الگ تجزیہ ہے، کچھ کے نزدیک علامتوں کی تعداد محض 400 ہے جبکہ کچھ یہ تعداد دو
ہزار بتاتے ہیں۔ جرمن محقق ڈاکٹر اینڈریاس فلوز کا دعویٰ ہے کے ان علامتوں کی
تعداد 17 ہزار ہے اور ان کا ڈیٹا ان کے پاس محفوظ ہے۔
کانفرنس میں
پاکستانی سکالرز ڈاکٹر فرزند مسیح، ڈاکٹر ساجد حسین خان، ڈاکٹر ندیم شفیق ملک،
ڈاکٹر اسمہ ابراہیم، ڈاکٹر قاصد ملاح بھی شریک تھے۔
Comments
Post a Comment