دیوار سندھ رنی کوٹ (منی دیوار چین)



دیوار سندھ  رنی کوٹ 
(منی دیوار چین)

·       ماہرین آثار اس کے معماروں کا کھوج لگانے اور اس کے سن تعمیر کے بارے میں معلومات حاصل کرنے میں اب تک ناکام ثابت ہوئےہیں۔
·       تاریخ کے صفحات میں اس قلعے کا نام رانی کا کوٹ، موہن کوٹ اور رنی کوٹ کے نام سے تذکرہ ملتا ہے ۔
·       سندھ کے اس عظیم شاہ کار کو وہ مقام نہیں مل پایا جو دیوار چین سمیت دنیا کے دیگر آثار کے حصے میں آیا ہے۔
·       رنی کوٹ قلعے کے سامنے دریائے رانی واقع ہے۔
·       قلعہ کے اندر داخل ہوتے ہی بالکل سامنے اسٹوپا نما برج ہے۔
·       اسٹوپا نما برج سے آگے دائیں جانب ایک مسجد کے آثار ہیں، جس سے یہاں مسلمانوں کی آمد کا سراغ ملتا ہے۔ مسجد کے مینار اور گنبد کے کچھ حصے شہید ہوچکے ہیں۔
·       30 فٹ اونچی فصیل کے ساتھ سیکیورٹی گارڈز کے گشت کیلئے 6 فٹ چوڑی گزرگاہ ہے۔
·       سیکیورٹی گارڈز کیلئے بیضوی شکل کے کمرے ہیں جن کے سامنے سے گزر کر دوسرے دروازے سے کھلا حصہ آتا ہے۔ اس حصے میں ساسانی قوم کے محلات کی طرز پر کمرہ بنا ہوا ہے۔
·       کلہوڑہ، تالپوروں اور انگریزوں نے اپنے اپنے دور میں اپنی ترجیحات کے مطابق اس قلعے میں تبدیلیاں کی تھیں۔
·       انگریزوں نے یہاں چٹانوں پر پھولوں کے نمونے تراش کر محرابیں طاق سیڑھیاں اور دروازوں کی چوکھٹیں بنائیں۔
·       فصیل پر پہنچنے کے لیے دروازے میں داخل ہونے کے بعد دائیں اور بائیں جانب پتھروں کی سیڑھیاں بنائیں۔ اسی جگہ ایک کنواں کھدوایا گیا۔

یونیسکو (UNESCO)
·       یونیسکو نے اس قلعہ اور دنیا کی دوسری طویل ترین دیو ار کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کو عالمی ورثہ قرار دے کر اسے قدیم آثار کی فہرست میں شامل کیا ہے۔
·       یونیسکو کی جانب سے اس قلعہ کو عالمی ورثہ قرار دیئے جانے کے باوجود تاحال رنی کوٹ پر کوئی مستند تاریخ سامنے نہیں آئی ہے۔

الیگزینڈر (1831ء)
برطانیہ کا معروف سیاح الیگزینڈر جب جامشوروکے مقام سے گزرا تو اس نے رنی کوٹ کے قلعہ کی بھی سیر کی۔ دیوار چین کے بعد دوسری عظیم دیوار کا سب سے پہلا تذکرہ دنیا کے سامنے الیگزینڈر نے پیش کیا تھا۔

کیورٹس رفس (یونان کے معروف مؤرخ)
350 سال قبل مسیح سکندر اعظم نے سندھ سے گزرتے ہوئے تین روز تک اس قلعہ کا محاصرہ کیا تھا۔ سندھ کا حکمراں اپنی رعایا سمیت قلعہ میں محصور ہو گیا تھا۔ سکندر اعظم قلعے کا دروازہ تڑوا کر قلعہ میں داخل ہوا لیکن اہل شہر ہزار فٹ کی بلندی پر واقع شیر گڑھ کے قلعہ میں پناہ گزین ہوگئے، جہاں تک رسائی یونانی فوج کے لیے انتہائی دشوار گزار راستوں کی وجہ سے ناممکن تھی۔

قدیم آثار کے ماہرین کے مطابق:
·       رنی کوٹ کی تعمیر میں کم سے کم 3 سے 4 ہزار مزدوروں نے کئی سال تک محنت مشقت کی ہوگی جب کہ اس وقت اس کی تکمیل پر 12لاکھ روپے کی لاگت آئی جو آج کے حساب سے اربوں روپے کے برابر ہے۔
·       اس دور کے لوگوں نے چنے کی دال، چونا، بحری، ٹاٹ، شنگرف اور دیگر اشیاء کے مصالحہ سے پتھروں کو جوڑنے کا ہنر سیکھ لیا تھا۔
·       قلعہ کی فصیل کے اندر ڈائناسورز کے فوسلز بھی ملے ہیں۔

ایم ایچ پنہور لکھتے ہیں کہ:
رنی کوٹ جن پہاڑیوں پر بنا ہوا ہے وہ کم از کم آٹھ کروڑ سال پرانی ہیں اور یہ سلسلہ کوہ، ہندوستان سے پاکستان تک پھیلا ہوا ہے۔

ڈاکٹر نبی بخش بلوچ لکھتے ہیں کہ:
قلعہ میں تحقیقی کام کے دوراں انہیں بعض ایسے شواہد ملے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ قلعہ تالپور حکمران کے وزیر نواب محمد خان لغاری نے تعمیر کرایا تھا۔

عبدالجبار جونیجو کا کہنا ہے کہ:
·       دنیا کا قدیم ترین قلعہ جیریکو شہر میں تھا جو 7 ہزار قبل مسیح میں بن کر تیار ہوا۔ اس کی دیواریں 21 فٹ لمبی اور 15 فٹ چوڑی تھیں جب کہ قلعے کی دیواریں 9 فٹ تک زیر زمین تعمیر کی گئی تھیں۔
·       رنی کوٹ اور دیوار چین بھی جیریکو شہر کے قلعے کے مماثل ہیں۔
·       رنی کوٹ کا قلعہ 32 کلومیٹر سے زائد رقبے پر پھیلا ہوا ہے اور اس کی دیواریں ساڑھے 7 کلو میٹر طویل ہیں۔ اس کا شمار دنیا کے چند بڑے قلعوں میں ہوتا ہے۔

بدر ابڑو لکھتے ہیں کہ:
·       رنی کوٹ کے قلعے کی تعمیر ایک سے زائد حکمرانوں کے ادوار میں ہوئی ہے۔
·       رنی کوٹ کے قلعہ کی تعمیر و مرمت مختلف ادوار میں کی جاتی رہی ہے ۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ:
·       رنی کوٹ کاقلعہ 836 ہجری میں عرب گورنر، عمران بن موسیٰ نے تعمیر کروایاتھا۔
·       رنی کوٹ، ساسانیوں کے دور کا قلعہ ہے۔
·       رنی کوٹ کی تعمیر رومی دور میں ہوئی تھی۔
·       چند ماہرین اسے یونانیوں کی طرز تعمیر سے مشابہہ قرار دیتے ہیں۔
·       بعض مؤرخین اسے تالپور حکمرانوں کا تعمیری کارنامہ قرار دیتے ہیں، جنہوں نے اسے 1812 میں تعمیر کرایا تھا۔
·       زمانہ قبل از مسیح میں بھی اس قلعہ کا وجود تھا۔ اس وقت سندھ ایران کی حدود میں شامل تھا، لیکن ان کے دعوے کے ٹھوس ثبوت نہیں ملے۔


’’میری قلعہ ‘‘کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ:
میری قلعہ تالپور میروں نے تعمیر کرایا تھا اس لیے ان کے نام کی مناسبت سے یہ ’’میری قلعہ ‘‘ کہلاتا ہے۔ یہ قلعہ زگ زیگ کی شکل میں ہے اور اِس کی تعمیر چونے اور پتھر سے کی گئی تھی۔

رنی کوٹ قلعے کے 5 دروازے:
1.      سن گیٹ
2.      موہن گیٹ
3.      آمری گیٹ
4.      شاہ بر گیٹ
5.      ٹوری دھوڑو گیٹ
رنی کوٹ قلعہ کو دیکھنے کے لیے آنے والے زیادہ تر افراد قلعے کا مرکزی دروازہ ’’سن گیٹ‘‘ کو استعمال کرتے ہیں، کیونکہ یہی دروازہ مرکزی شاہراہ سے آنے والے راستے پر موجود ہے۔
قلعے کے باقی دروازے پہاڑوں سے گھرے ہوئے ہیں جنہیں ماضی میں یہاں کے باسی استعمال کرتے تھے۔

پرین جو تڑ (پانی کا چشمہ):
رنی کوٹ میں پانی کا چشمہ بھی موجود ہے، اس چشمے کو سندھی زبان میں ’پرین جو تڑ‘ کہا جاتا ہے۔ اس چشمے میں پہاڑوں کی بلندی سے پانی آتا ہے جو سال کے تمام دن کبھی کم تو کبھی زیادہ مقدار میں بہتاہے۔
·       یہ چشمہ قلعے کے ایسے مقام پر موجودہے، جو چار اطراف سے 1500 سے 2000 فٹ بلند پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے۔
·       اس چشمے کے حوالے سے بھی دلچسپ کہانیاں مشہور ہیں۔
·       قلعہ کے اندر رہنے والے مقامی افراد کے مطابق:
·       کسی زمانے میں اس چشمے کے اندر پریاں یا پھر شاہی گھرانوں کی شہزادیاں آکر نہاتی تھیں، جس کی وجہ سے اس کا نام ’’پرین جو تڑ‘‘ پڑگیا۔
·       بعض داستانوں میں بتایا گیا ہے کہ حضرت سلیمان ؑ کے دور میں یہ قلعہ جنوں کا مسکن رہا ہے اور اس کی تعمیر بھی انہی کے ہاتھوں سے ہوئی تھی۔

رنی کوٹ یا دیوارِ سندھ کی خاص بات یہ بھی ہے کہ:
·       رنی کوٹ قلعے کے اندر ’’میری‘‘ اور’’ شیر گڑھ کوٹ‘‘ کے نام سے مزید 2 چھوٹے قلعے بھی تعمیر کیے گئے ہیں۔
·       یہ 2 چھوٹے قلعے (’’میری‘‘ اور’’ شیر گڑھ کوٹ‘‘) اس قلعے کو دنیا کے منفرد اور عظیم قلعے کی شناخت دیتے ہیں۔
·       شیر گڑھ قلعہ سطح سمندر سےتقریباً ایک ہزار فٹ کی بلندی پر پہاڑ کی چوٹی پر بنا ہوا ہے، جس کی تعمیر ایک عجوبہ ہے۔
·       اس قدر بلند ترین اور خطرناک مقام تک تعمیراتی سامان کس طرح سے پہنچایا گیا ہوگا۔کسی بیرونی حملے کی صورت میں حکمران اپنی رعایا کے ساتھ اسی قلعہ میں پناہ گزین ہوتے تھے۔
·       ’’میری کوٹ‘‘ کا قلعہ سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔
·       رنی کوٹ کی دیواریں نہ صرف زمین بلکہ پہاڑوں پر بھی بنی ہوئی ہیں اور مجموعی طور پر ان کی لمبائی 30 کلومیٹر ہے، تاہم گزشتہ چند سال سے قلعے کی دیوار کا کچھ حصہ منہدم ہوچکا ہے۔
·       رنی کوٹ کے اندر اونچے اونچے پہاڑ اور سرسبز کھیت ہیں۔
·       اس دیوار پر تقریباً 18 واچ ٹاورز بھی ہیں، جن کےمتعلق مؤرخین کا کہنا ہے کہ یہ ٹاورز کسی زمانے میں بیرونی حملہ آوروں سے خبردار رہنے کے لیے استعمال ہوتے تھے۔
·       یہاں ایک ندی بھی ہے جو کافی فاصلے تک زیر زمین بہتی ہے۔ قلعے کے اندر آباد گاؤں کے افراد جن کی زندگی کا انحصار زراعت پر ہے، اپنی فصلوں کی آبیاری اسی ندی کے پانی سے کرتے ہیں۔

Share on WhatsApp

Comments

Popular posts from this blog

وطن جي حب

اسان جو وطن (پيارو پاڪستان)

محنت ۾ عظمت