روم شہر میں - سفرنامہ


صبح ہوئی، سورج نکلا تو ہمارا جہاز روم میں اتر گیا، ٹکٹ کے مطابق ہمیں روم میں دو دن رہنا تھا۔ اترتے ہی دل میں سوچا کہ اس تاریخی شہر میں دو دن کافی نہیں ہیں۔ باہر نکل کر ایئرپورٹ پر ہی مزید ایک دن کی اجازت لے لی۔ ایئر پورٹ سے باہر نکل کر خاموشی سے میں رقم چینج کرانے گیا اور قمر سے کہا، انفارمیشن کاﺅنٹر سے ہوٹل اور شہر تک پہنچنے کے متعلق معلومات کریں۔

پیسے تبدیل کرتے ہی دل باغ باغ ہوگیا........ ڈالر میں ساڑھے آٹھ سو کے قریب ”لیرا“ ہوتے ہیں لاکھوں لیرا مل گئے۔ خوشی سے قمر کے پاس پہنچا اور انہیں کہا:

اب مجھ سے سوچ سمجھ کر بات کرنا! میں لکھ پتی بن گیا ہوں، میری جیب میں لاکھوں لیرا ہیں۔

وہ غصہ میں کھڑے تھے، انفارمیشن کاﺅنٹر پر کوئی بھی موجود نہیں تھا۔ ٹیکسی اور ہوٹل کے ایجنٹوں نے ہمیں اس طرح گھیر لیا جیسے حیدرآباد کے ریلوے اسٹیشن پر لوگوں کو ”چار پائی بستر“ والے گھیر لیتے ہیں یا مارکیٹ میں ”رکشے“ والے۔

ہم نے آدھا گھنٹہ اسی حالت میں گذارا، آدھے گھنٹے کے بعد انفارمیشن کاﺅنٹر پر ایک ٹھگنے قد کا موٹا ،گنجا اور بھینگا اطالوی ظاہر ہوا، اس نے بتایا کہ آدھے گھنٹے کے بعد بس شہر جائے گی جس کا کرایہ پندرہ سو لیرا ہے۔ اسی بس سے اترنے کے بعد ہوٹل بک کرا سکتے ہو، البتہ اگر سستی ہوٹل چاہئے تو میں آپ کو یہاں بک کرا دیتا ہوں۔

بس میں سامان رکھا، چھتریاں باہر تھیلوں میں رکھی تھیں اس لئے کہ دوستوں کے مشورہ کے مطابق کسی بھی وقت بارش برس سکتی ہے۔ بس ہرے بھرے میدانوں کو روندتی ہوئی آدھے پونے گھنٹے میں شہر پہنچ گئی۔ روم تاریخ کا شہر، روم تمدن کا شہر، سنگ تراشی کا شہر۔ مجھے ”امداد“ کی سطریں یاد آئیں!
روم شہر میں،
روم شہر میں!
روم شہر میں جاتے ہی عجیب سا احساس ہوا یوں محسوس ہوا جیسے یہاں حال اور ماضی ایک دوسرے کو گلے لگا کر کھڑے ہیں۔ بس چلتی چلتی ایک سنگ مرمر کی ونگ (Arch) کے نیچی سے گذری جو ہزارہا سال پرانا نظر آرہا تھا پھر سامنے دیکھو تو (Fully glazed مکمل چمکنے والے) شیشوں والی جدید بڑی بلڈنگ! شہر کے ایئر ٹرمینل پر اترتے ہی ہوٹل والوں نے گھیرا ڈال دیا۔

میں نے قمر سے کہا:
آپ ہوٹل کے اندر جا کر بکنگ کے بارے میں معلوم کر آئیں، میں ان سے نمٹتا ہوں“۔

قمر اندر سے معلوم کر کے آئیں تو وہی ریٹ تھا، جو ایک ایجنٹ نے پہلے ہی مجھے بتایا تھا۔ میں نے بھی اسی ایجنٹ کو ڈبل بیڈ کا کمرہ بک کرانے کو کہا اس نے اسی وقت ہوٹل میں فون کیا اور ٹیکسی رکوا کر اس میں سامان رکھا۔

کمرے میں سامان رکھا، کمرہ بڑا اور آرامدہ تھا ایک کھڑکی روڈ کی طرف کھلتی تھی۔ ساتھ میں ایک کھانے کا کمرہ اور لاﺅنج تھا، جس میں کلر ٹی وی رکھا ہوا تھا، ہوٹل کے کاﺅنٹر سے ٹوئرسٹ انفارمیشن مانگی جس کو پڑھ کر یوں محسوس ہوا کہ اٹلی میں تین دن تو کیا، تین ہفتے بھی کم ہیں۔

قمر سے مشورہ کرنے کے بعد ”الاتالیا“ کو فون کرکے کہا کہ ”ہماری سیٹ ایک دن لیٹ والی فلائیٹ میں رکھو“۔ دس منٹ میں جوابی فون آیا کہ آپ کی سیٹ ایک دن لیٹ فلائیٹ میں بک ہے۔

میں کمرے میں آکر سوگیا، شام کو ہوٹل سے ہی ٹوئر بک کرایا تھا مگر صبح کا وقت تھا نیند نہیں آئی صرف بستر پر لیٹ کر کچھ آرام کیا۔

فکس ٹائیم پر دروازہ کھٹکھٹایا گیا، ٹوئر کمپنی کی لڑکی ہمیں لینے آئی تھی، ہم بھی تیار تھے نیچے ان کی گاڑی کھڑی تھی، جس میں دوسرے سیاح بیٹھے ہوئے تھے۔ بس وہاں سے ہمیں شہر کی بڑی چورنگی پر لے آئی جہاں ان کی کمپنی کی کئی بسیں کھڑی تھیں۔ وہاں ہر ایک سے معلوم کیا گیا کہ انگریزی، جرمن، فرینچ کون سی زبان جانتے ہو؟ مختلف زبانیں جاننے والوں کو مختلف بسوں میں بٹھایا گیا۔

ہم جس بس میں بیٹھے اس میں انگریزی اور فرینچ بولنے والی عورت تھی۔ یہ سفر شہر کا طائرانہ سفر تھا۔ انہوں نے شہر کے مشہور راستے اور عمارتیں دکھائیں، ایک دو جگہوں پر بس کو روک کر سیر کرائی گئی۔

یہ ”ول بورجیس“ ہے یعنی ”سدا بہار باغ“ گائیڈ جو ڈرائیور کے ساتھ کھڑی تھی جس کا منہ ہماری طرف تھا اس نے کہا ”اس باغ میں ایسے درخت اور پھول ہیں جو ہر موسم میں تازہ دم رہتے ہیں“۔ میں نے سوچا ”اس باغ کے باہر ایسا بورڈ لگادینا چاہئے جس پر لکھا ہو ”خزاں کے موسم کا اندر آنا منع ہے۔

اس کے بعد آرچین دیوار آئی جو تیسری صدی عیسوی میں بنی تھی۔ اس وقت روم کی آبادی دس لاکھ تھی۔

بس ایک چوڑے، صاف ستھرے اور فیشن ایبل راستے سے گذری۔ گائیڈ نے بتایا ”یہ وایو وینٹو (Viavento) ہے۔ روم کی مہنگی سے مہنگی گلی!“

بس بینک آف اٹلی کی عمارت سے گذری جو جدید فن کا نادر نمونا ہے اور پھر کچھ وقت کے بعد سنگ مرمر کی ایک دقیانوسی ونگ کے نیچے سے گذری وہاں مجھے کہاوت یاد آئی:
Room was not built in a day
روم ایک دن میں نہیں بنا۔
روم کی تعمیر صدیوں کا سفر ہے۔ روم قدیم بھی ہے تو جدید بھی، روم وقت کے ساتھ ساتھ آگے بڑھا ہے۔ موھن جو دڑو کی طرح وقت کے ساتھ قدم سے قدم نہ ملانے کی وجہ سے تاریخ میں میوزم کی زینت نہیں ہوا ہے بلکہ کبھی کبھار وقت سے آگے بڑھ کر وقت کی رہنمائی بھی کی ہے۔

گائیڈ نے بتایا ”یہ سنگ مرمر کے ونگ قدیم دور کے شہر کی حفاظتی دیوار میں تھے جن کو ابھی تک محفوظ رکھا گیا ہے۔

کہاں گئے شکارپور کے لکھی در، ہزاری در، ہاتھی در، واگنادر؟صرف ان کے نام کچھ محلوں پر پڑے ہوئے ہیں۔

بس چلتی ہوئی آکر۔ مسولینی کے ہیڈ کوارٹر پہنچی وہاں ہمیں بس سے اتارا گیا۔ دودھ جیسے سفید سنگ مرمر کے بہت بڑے مرقع کے آگے آکر کھڑے ہوگئے۔

یہ وہ جگہ تھی جہاں سے فاشزم کا خالق مسولینی کھڑے ہوکر تقاریر کرتا تھا (مسولینی مرگیا، آج بھی ملک کے لوگ اس سے نفرت کرتے ہیں، مگر یہ فن کا مرقع ابھی بھی زندہ ہے۔ آج بھی لوگ اس دودھ جیسی برف سے پیار کرتے ہیں)۔ یہ سنگتراشی کے فن کا مرقع ہے۔ اس فن کے مرقع میں ”ایک دل ہزار داستان“ کی طرح کہیں گھوڑے، کہیں سپاہی، کہیں جرنل۔ ہر انچ فن کا نمونہ تھا۔ اس کو تفصیل سے دیکھنے کیلئے گھنٹے نہیں بلکہ دن چاہئیں۔ وہاں نامعلوم سپاہی کا مزار بھی تھا۔ یورپ کے دوسرے جگہوں پر بھی نامعلوم سپاہی (Unknown Soldier) کے مزاریں ہیں، پیرس میں، اتھینس میں۔

مشہور فیشن ایبل بازار ”وایا وینٹو“ سے ہوتے ہوئے آثار قدیمہ تک پہنچے، جہاں ایک طرف محل تھے تو دوسری جانب عبادتگاہ۔ یہ جگہ حضرت عیسیٰؑ سے آٹھ صدیاں قبل کی تھیں اس کے سامنے راستہ تھا، جہاں سے جلوس نکلتے، اس راستے پر ہی فتح (کامیابی) کی ونگ (Arch of Trimph)  تھی۔ وہ عوامی کامیابی کا یادگار تھا۔

پھر بس ویا وینٹو سے ہوتی ہوئی کولوزم کے پاس کھڑی ہوئی۔ ایئر پورٹ سے شہر آتے ہوئے بس کولوزم (Collosum) سے گذری تھی تو میں سمجھ گیا تھا کہ یہ کسی اہم عمارت کے آثار ہیں۔

کولوزم ایک گول عمارت ہے، جس کے چاروں اطراف دروازے ہیں۔ یہ عمارت گلیڈیٹرس اور شیر کے مقابلے کیلئے بنائی گئی تھی۔ یہ تماشا وقت کا بادشاہ اور 50 ہزار آدمی دیکھتے تھے۔ یہ عمارت حضرت عیسیٰ ؑ  سے 72 - 80 سال پہلے بنی تھی۔ اس وقت کا انسان بھی وحشی تھا۔

ہماری بس ایک ایسی جگہ کھڑی ہوئی، جہاں حضرت عیسیٰؑ سے آٹھ صدیاں قبل تعمیر کی ہوئی روم کی عوام کی سینیٹ ہے (ہو سکتا ہے کہ یہ دنیا کا قدیم ترین جمہوری اداراہ ہو) وہاں بس سے اتر کر آثار قدیم دیکھے۔

گائیڈ نے بتایا کہ:
قدیم، رومن تھذیب کے تین علامات ہیں! ”انگور کی بیل، زیتون اور انجیر“ میں نے ان سے دریافت کیا کہ یہ کس کی علامات ہیں؟ انہوں نے جواب دیا ”یہ انسان کی اہم ضروریات ہیں“۔ اور مزید سمجھا نہ سکی۔

بس الٹے سیدھے موڑ کاٹتی ہوئی تائیا ندی کی پل سے گذرتی ہوئی آگے بڑھتی رہی۔ روم شہر کی خوبصورتی سنگ تراشی کے عظیم کارناموں کی وجہ سے ہے، تو تائیا ندی کی وجہ سے بھی! بس چلتی ہوئی آکر سینٹ پال کے گرجا گھر کے پاس کھڑی ہوئی، ہم بس سے اتر کر گرجا کو دیکھنے کیلئے آگے بڑھے۔ یہ گرجا تیسری صدی عیسوی میں تیار کیا گیا تھا۔ 1826 ء میں آگ لگنے کی وجہ سے جل گیا تھا کیونکہ اس کی چھت لکڑی کی تھی، اس کی دوبارہ مرمت کرائی گئی۔ اس گرجا کا ایک مقدس دروازہ (Holly Door)  ہے جو پچیس برسوں کے بعد کھلتا ہے۔

اس کے بعد نیرو (Nero) کا سونے (Gold) کا گھر دیکھا۔ نیرو قدیم روم کا بادشاہ تھا۔ انہوں نے صرف جلتے شہر کا منظر دیکھنے کیلئے روم کو آگ لگوائی اور اس نظارے سے لطف اندوز ہوتا رہا اور بانسری بجاتا رہا۔
 کہاوت ہے کہ:
Room was burning and Nero was fidding.
روم جل رہا تھا اور نیرو بانسری بجا رہا تھا۔
بس گھومتی ہوئی ایک گرجا گھر کے پاس کھڑی ہوئی جہاں آدمیوں کے علاوہ ٹوئرسٹ بسوں کا ہجوم تھا وہاں دنیا کے عظیم بت تراش مائیکل اینجلو کا مشہور فن پارہ رکھا ہوا تھا۔

(تنویر عباسی کے سفرنامہ ”ڈورے ڈورے ڈیھ“ سے لیا گیا)

Comments

Popular posts from this blog

اسان جو وطن (پيارو پاڪستان)

وطن جي حب

محنت ۾ عظمت