کارونجھر کی سیر


تفریح انسان کی صحت کیلئے ضروری ہے۔ تفریح کا ایک طریقہ سیر و سفر بھی ہے۔ کراچی سے کشمور اور کینجھر سے کارونجھر تک گھومنے پھرنے اور معلومات بڑھانے کیلئے کئی جگہیں موجود ہیں۔ آئیے اسی سلسلے میں آپ کو سندھ کے ریگستانی علائقے ”تھر“ لے چلیں۔

اس بار ہم آپ کو کارونجھر کی سیر کراتے ہیں۔ کارونجھر جانے کیلئے حیدرآباد سے ٹرین، بس یا کار کے ذریعے میرپور خاص پہنچنا پڑے گا۔ وہاں سے بذریعہ روڈ ڈگڑی، ٹنڈو جان محمد، جھڈو، نیا کوٹ اور وجوٹی سے ہوتے ہوئے مٹھی شہر پہنچنا ہوتا ہے۔

ہم آپ کو جیپ میں لیکر چلتے ہیں۔ مٹھی میں رات رہنے کیلئے انسپیکشن بنگلہ میں انتظام کیا گیا ہے۔ مٹھی کے بعد، اسلام کوٹ، ننگر پارکر اور کارونجھر کے علائقے تک کوئی بھی پکی سڑک موجود نہیں ہے۔ پہلے زمانے میں لوگ اونٹوں پر سفر کیا کرتے تھے۔ گذشتہ تیس سالوں سے ہیوی ڈیوٹی ٹرک چلنے لگے ہیں، جن کو مقامی زبان میں ”کھیکھڑا“ کہا جاتا ہے۔ کھیکھڑوں میں مسافروں کو بکریوں کی طرح ٹھونسا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مٹھی سے ننگر پار تک پہنچنے میں آٹھ گھنٹے لگ جاتے ہیں۔

مٹھی میں رات گذار کر ہم ننگر پار جا رہے ہیں۔ لو راستے میں بھالوا کا گاﺅں آگیا ہے، یہی مارئی کا ملیر ہے۔ آﺅ (مارئی جو تڑ) ”مارئی کا کنواں“ دیکھتے ہیں، جو اب برباد ہو چکا ہے البتہ کنویں کے پاس مارئی کا رکھا ہوا پتھر کا گملہ، اسی زمانے سے رکھا ہوا ہے۔

اب ہم ننگر پار کے انسپیکشن بنگلہ میں پہنچ چکے ہیں سامان رکھو تو کارونجھر پہاڑ گھومنے چلتے ہیں۔ گائیڈ، جس کو سونہوں کہتے ہیں ہمارے ساتھ ہے۔

اوپر کارونجھر کے چھوٹے پہاڑوں کی قطار جو آپ دیکھ رہے ہیں وہ مرغی کے انڈے جیسی ہے، جس کی گولائی 32 ۔ 48 کلومیٹر ہے۔ اس کی بڑے سے بڑی چوٹی زمین کی سطح سے ایک ہزار فٹ بلندی پر ہے۔

کارونجھر کا ذکر ہندﺅں کی کتاب وید میں بھی آیا ہے۔ اس چوٹی پر ہندﺅں کے کئی تیرتھ آستانے (ہندﺅں کی مقدس جگہیں) دیکھیں گے جن کے اندر دیوتاﺅں اور دیویوں کی مورتیاں رکھی ہوئی ہیں۔ وہ دیکھو ”مہا دیو“ (شیو مہراج) کا مندر ہے یہاں ماہ مارچ میں ”شور اتڑی“ کا میلہ لگتا ہے۔ اس سے تھوڑا دور پہاڑی پر ہندﺅں کا تیرتھ ہے۔ اس پہاڑی کو گئو مکھی بھی کہتے ہیں دیکھو تو سہی دونوں پہاڑیوں کی چوٹیاں کیسے ملی ہوئی ہیں! ان پہاڑیوں کا میلاپ ہوبہو ”گائے“ کی شکل جیسا ہے۔

تیس فٹ کی بلندی سے بارش کا پانی آبشار کی صورت میں نیچے گرتا ہے۔ واہ! کیسا خوبصورت نظارا ہے۔ اسی آبشار سے گرنے والا پانی گائے کے تھن سے نکلنے والے دودھ جیسا نظر آتا ہے۔

تھوڑا دور جنوب کی طرف گہرا بھنور نظر آ رہا ہے جس کو ”بھیم گوڈا“ بھی کہتے ہیں۔ جنوب۔ مغرب کی طرف دو میلوں کے مفاصلے پر ”انچا شور“ یا ”انچلاس“ نامی ”مہادیو“ کا آستانہ ہے یہاں پانی کے تین چشمی ہیں۔ تھوڑی دور وہ بڑا پتھر دیکھو جو اندر سے خالی ہے اور اوپر چھتری کی طرح ہے اسے بائن جو بیٹھنو (باواﺅں کی بیٹھکیں) کہتے ہیں۔ تقریباً بیس آدمی اس چھتری کے نیچے بیٹھ سکتے ہیں۔ اس سے تھوڑی دور ”چنڈن گڈ“ نامی قلعہ کے نشانات دیکھ سکتے ہیں، 1859ء میں انگریزوں نے توپوں سے اس قلعہ کو برباد کردیا۔ کارونجھر کے علائقے میں کئی چھوٹے بڑے برساتی نالے ہیں، ان کا پانی رن کچھ جاتا ہے۔ یہاں قدرتی تالاب بھی ہیں۔

کارونجھر میں جنگلی جانور جیسے: بھیڑیا، خنزیر، گیدڑ، چرخ، جنگلی گدھے، بجو، باندر وغیرہ رہتے ہیں۔ یہاں کے نیلے رنگ والی نیل گائے، ہرن اور مور مشہور ہیں۔ گوگرائی درخت سے گگر (ایک قسم کی گوند) اور کونبھٹ درخت سے گوند اور کئی درختوں سے شہد بھی ملتی ہے۔ یہاں ارنڈی بھی بہت ہوتی ہے جس سے تیل نکلتا ہے۔ یہاں کا ٹوھ (توڑ تنبہ) دواﺅں میں کام آتا ہے۔

کارونجھر پہاڑ معدنیات سے مالا مال ہے، اس علاقے میں نمک کے کافی ذخائر ہیں، جس کو ”نمک کے علاقے“ کہا جاتا ہے۔ کارونجھر سے عمارتوں میں استعمال ہونے والا پتھر گرینائیٹ ملتا ہے، یہاں ”بھونکر“ نامی عمارتوں کا پتھر بھی ملتا ہے جو پانی گرانے سے سیمینٹ کی طرح مضبوط ہو جاتا ہے اس علاقے میں اعلیٰ قسم کی چینی مٹی بھی ملتی ہے۔

کارونجھر کی سیر کرنے کے بعد ہم رات ننگر پار کے انسپیکشن بنگلہ میں گذارتے ہیں اور صبح کو مٹھی روانہ ہوجائیں گے۔ لو ہم مٹھی پہنچ گئے ہیں، شہر گھوم پھر کر یہاں کی مشہور مٹھائی ”موہنیاں“ لیکر واپس حیدرآباد روانہ ہوتے ہیں۔

Comments

Popular posts from this blog

وطن جي حب

اسان جو وطن (پيارو پاڪستان)

محنت ۾ عظمت