میں کراچی ہوں - نفیس صدیقی



·      میں دیبل تھا ، بھمبھور تھا۔ میں مائی کلاچی اور کراتشی تھا۔
·      میں کراچی ہوں۔ میں پاکستان ہوں۔  میں وادی سندھ ہوں۔  میں پاکستان کے ماتھے کا جھومر ہوں اور ایشیا کے سر کا تاج ہوں۔
·      میں ما قبل تاریخ قدیم سندھیوں کی ایک بستی تھا۔
·      میرے آثار وادی سندھ سے بھی پہلے کے ہیں۔
·      میں ماقبل تاریخ کانسی کے دور میں بھی ایک اہم بندرگاہ تھا۔
·      میں پہلے غیر مسلم اور بعد ازاں مسلم سندھیوں کی اعلیٰ روایات کا امین ہوں میں صرف سندھ کا نہیں بلکہ وادی سندھ کی اعلیٰ روایات کا امین ہوں۔
·      ایک زمانے میں دنیا کے خوبصورت اور صاف ستھرے شہروں میں میرا شمار ہوتا تھا اور میں جنوبی ایشیا کا سب سے ترقی یافتہ شہر تھا۔
·      اس خطے میں بندرگاہ اور ہوائی اڈہ سب سے زیادہ مصروف ہوتے تھے۔ دنیا بھر کے سیاح میری مارکیٹوں اور بازاروں میں آکر خریداری کرتے تھے۔
·      میرے ہوٹلوں کا معیار بین الاقوامی تھا اور وہاں غیر ملکی سیاحوں کو پیشگی اپنی رہائش محفوظ کرانا ہوتی تھی۔
·      میری سڑکیں روزانہ پانی سے دھلتی تھیں۔
·      میرا فن تعمیر مشرق اور مغرب کا تہذیبی سنگم تھا۔
·      میرے باسیوں کو پاکستان میں پہلی دفعہ اور پہلی جگہ جدید ٹاؤن شپ کے مطابق رہائش ملی۔
·      انہیں نقل و حرکت کے لئے اپنے وقت کی جدید ٹرانسپورٹ ملی۔
·      انہیں بجلی، پانی، گیس، تعلیم، صحت، سیوریج اور شاہراہوں کی سہولتیں ملیں۔
·      میں نہ صرف اس خطے بلکہ دنیا کی اہم ترین بندرگاہ ہوں۔
·      میں مشرق اور مغرب کے درمیان تجارتی راہداری ہوں۔
·      میں غریبوں کی ماں ہوں میں نے پاکستان بننے سے پہلے اور پاکستان بننے کے بعد ہر اس شخص کو اپنی گود میں سمیٹا ، جو کہیں اور زندگی سے مایوس تھا۔
·      میں نے لوگوں کو عزت اور وقار دیا۔

میں کراچی ہوں۔ میرا قصور کیا ہے؟

·      کچھ لوگ مجھے پیرس بنانے آئے تھے مگر وہ لاڑکانہ بنا گئے۔
·      کچھ لوگ مجھے دبئی بنانے آئے تھے مگر انھوں نے مجھے دادو سے بھی بدتر بنا دیا۔
·      آج میری شناخت سب سے گندے شہر کی حیثیت سے ہوتی ہے۔
·      ہر طرف گندگی کے ڈھیر ہیں۔
·      سڑکیں گڑھوں میں تبدیل ہو چکی ہیں۔
·      لوگوں کو پانی میسر نہیں۔
·      8 سے 16 گھنٹے تک بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے۔
·      ’’غریب کی ماں‘‘ کراچی میں دنیا کے سب سے زیادہ بھکاری ہیں۔
·      نوجوان لڑکیاں چند ماہ کے بچوں کے ساتھ کڑکتی دھوپ میں ہر چوراہے پر بھیک مانگتی نظر آتی ہوں تو یہ میں کراچی ہوں۔
·      میری مٹی سے لوگوں نے امریکہ، یورپ اور عرب ممالک کی رئیل اسٹیٹ پر قبضہ کیا۔ مگر میرے باسی ہر اس سہولت سے محروم ہیں ، جو انہیں آج سے 40 سال پہلے حاصل تھی۔
·      میرا قصور یہ ہے کہ میں اس خطے کی اہم بندرگاہ ہوں۔
·      میں نے 1944ء میں ٹاور سے پہلے باب کراچی پر ایک بورڈ لگایا تھا کہ 
’’جنوبی افریقا کے نسل پرستوں کو کراچی خوش آمدید نہیں کہتا۔ ‘‘
·      مگر میں دنیا کی شاید واحد بندرگاہ ہوں، جس پر ایسے لوگوں نے قبضہ کر لیا ہے، جن کی نشاندہی برازیل کے ناول نگار پاؤلو کوئیلہو  (Paulo Coelho de Souza) نے اپنے ناول ’’الکیمسٹ‘‘  Alchemist  میں کردی ہے۔ 


پاؤلو کوئیلہو نے درست کہا ہے کہ بندرگاہوں پر ٹھگ قبضہ کر لیتے ہیں۔

Comments

You May Like

You May Like

WhatsApp

Archive

Show more