شمس العلماء مرزا قلیچ بیگ کی علمی اور ادبی خدمات
مرزا قلیچ بیگ، سندھ کے بڑے عالم، ادیب،
شاعر، مترجم، تاریخدان اور تعلیمی ماہر ہوکر گذرے ہیں۔ ان کا نام سندھ کی علمی اور
ادبی تاریخ میں ہمیشہ یاد رہے گا۔
مرزا قلیچ بیگ کے آباﺅ اجداد اصل میں
جارجیا ایشیا ٹک ترکی کے رہنے والے تھے۔ ان کے دادا جارجیا کے دارالحکومت کے شہر
طفلس کے قریب رہتے تھے۔ وہ ایک عیسائی امیر تھے۔ جب ایران اور جارجیا کے درمیان
جنگ ہوئی تو مرزا صاحب کے دادا اپنے بیٹے سڈنی کے ساتھ گرفتار ہو کر ایران پہنچے۔
سڈنی کو ایران کے ایک جاگیردار سید مرتضیٰ شاھ نے مسلمان کرکے ان کا نام فریدون
بیگ رکھا۔
سندھ کے حاکم میر کرم علی خان ٹالپور کے
پیغام رسان جب ایران کے شہر اصفہان گئے تو وہاں سے فریدون بیگ کو ساتھ لے آئے۔ میر
کرم علی خان نے فریدون بیگ کو مرزا خسرو بیگ کے سپرد کیا آگے چل کر فریدون بیگ کی
شادی اپنی بیٹی سے کرائی۔ اس خاتون سے فریدون بیگ کو دو بیٹیاں اور سات بیٹے ہوئے ان
میں تیسرے نمبر پر مرزا قلیچ بیگ تھے۔
مرزا قلیچ بیگ، ٹنڈو ٹھوڑھو، حیدرآباد
میں 1853ء میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے قرآن شریف، عربی، فارسی، سندھی اور انگریزی کی
ابتدائی اور ثانوی تعلیم حیدرآباد میں حاصل کی اس کے بعد بی ۔ اے پڑھنے کیلئے
ایلفنسٹن کالج ممبئی گئے، جہاں سے وطن واپس ہوتے ہی انہیں مختیارکار بنادیا گیا
اور بعد میں ترقی کرتے کرتے ڈپٹی کلیکٹر بن گئے۔ انہوں نے تیس سال سرکاری نوکری
کرنے کے بعد 1910ء میں پنشن لی۔ سرکاری نوکری کے دوران انتہائی ایماندار افسر رہے
اور ساتھ ساتھ علم و ادب کی بھی خدمت کرتے رہے۔
مرزا صاحب نے انگریزی، عربی، فارسی اور
اردو زبان کے مضامین اور کتب کا ترجمہ کرکے سندھی زبان کے ادب کو مالا مال کردیا۔
انہوں نے چار سو سے زیادہ کتابیں لکھیں، ان میں بہت سے ترجمی بھی تھے ان میں ناول،
ڈرامی، کہانیاں، تاریخ، مذھب، فلسفہ، سائنس، زراعت، باغبانی، علم حشرات، ستاروں کا
علم، لغت، سوانح نگاری، شعر، تنقید نگاری، مضمون نگاری، تعلیم، گرامر اور کئی
دوسرے موضوع آجاتے ہیں۔
مرزا صاحب کی نثر میں سادگی، دلکشی اور
روانی تھی۔ انہوں نے سادہ اور سلیس زبان میں سیکڑوں کتابیں لکھ کر سندھیوں پر بڑا
احسان کیا۔ ان کی کتب کے خزانے سے ہر چھوٹے بڑے، شہری چاہے دیہاتی، مرد چاہے عورت
نے فیض حاصل کیا۔
مرزا صاحب کو نہ صرف سندھی زبان پر عبور
حاصل تھا بلکہ انگریزی زبان پر بھی مہارت رکھتے تھے۔ انہوں نے کئی کتب انگریزی میں
بھی لکھیں ان میں سندھ کی تاریخ پر عرب دور کے متعلق لکھی ہوئی کتب اور”چچنامہ“ کا
انگریزی ترجمہ بڑی اہمیت رکھتا ہے۔
مرزا صاحب اپنے دور کے ایک اہم شاعر
تھے۔ ان کی شاعری کی کئی کتب شائع ہو چکی ہیں۔ ان میں دیوان قلیچ ”کلام قلیچ“،
”چندن ھار“ مشہور ہیں۔ انہوں نے فارسی اور انگریزی شاعری کا ترجمہ بھی کیا جن میں
”رباعیات خیام“ اور ”عجیب جواہر“ سب سے زیادہ مقبول کتب ہیں۔
تاریخ اور تحقیق کے میدان میں بھی مرزا
صاحب کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی لکھی ہوئی تاریخی اور تحقیقی کتب
میں: تاریخ سندھ، سندھی زبان کی تاریخ، احوال شاھ عبداللطیف بھٹائی ؒ رسالہ کریم،
ثابت علی شاھ شاعر کا احوال اور مرثیہ، بابل اور نینوا، دنیا کی مختصر تاریخ وغیرہ
شامل ہیں۔ انہی علمی و ادبی خدمات کی بنا پر ”مرزا صاحب کو ”شمس العلمائ کا خطاب
دیا گیا۔
انہوں نے عورتوں کی فلاح و بہبود اور
تعلیم و تربیت کیلئے بھی کتابیں تحریر کیں، ان میں ”صحت النسائ“، ”ھدایت النسوان“،
”تحفة النسوان“ اور ”تعلیمی حکمت“ اہم ہیں۔
مرزا صاحب نے بچوں کیلئے بھی کئی قیمتی
اور دلچسپ کتابیں لکھیں۔ انہوں نے اسکول کے بچوں کیلئے پیاری نظمیں اور گیت لکھے۔
مرزا صاحب نے مختلف مذاھب پر مختلف
کتابیں لکھیں جن کی بڑی اہمیت ہے۔ ان کتب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں نہ
صرف اپنے مذھب اسلام کی معلومات تھیں بلکہ دوسرے مذاہب کے متعلق بھی بڑی معلومات
رکھتے تھے۔
مرزا قلیچ بیگ سندھ کے عظیم قلمکار تھے،
جنہوں نے حقیقی معنوں میں انگریزی زبان، اس کی تعلیم، شعر و ادب کی مغربی اصناف
ڈرامی، کہانی اور ناول کو سندھ میں متعارف کرایا۔ ان کا ماحول تبدیل کرکے مقامی
رکھا، جس کی وجہ سے پڑھنے والوں میں بڑی دلچسپی پیدا ہوئی۔ ان کے زیادہ تر ڈرامی
اسٹیج کئے گئے جنہوں نے لوگوں میں بڑی مقبولیت حاصل کی۔ ان کا ڈراما ”انکواری
آفیسر“ کئی بار اسٹیج ہو چکا ہے۔ ان کے ناول” زینت“ کا اردو میں بھی ترجمہ ہوا ہے۔
مرزا قلیچ بیگ کو سندھ کی علمی و ادبی
تاریخ میں بڑا مقام حاصل ہے۔ ہمیں مرزا قلیچ بیگ پر بجا طور پر فخر ہے۔ سندھی ادب
کے محسن 3 جولائی 1929ء کو اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کا مزار ٹنڈو ٹھوڑھو،
حیدرآباد میں ہے۔
Good 👍
ReplyDelete