روشنیوں کا شہر کراچی


کراچی عربی سمندر کے کنارے، سندھ صوبہ کا دارالحکومت ہے اور پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔ طبعی لحاظ سے کراچی سندھ کے شمال۔ مغرب کے کونے پر ہے۔ بہت پہلے مائی کلاچی (خاتون کلاچی) نے یہاں ایک گاﺅں تعمیر کرایا تھا جو اس کے نام کے پیچھے ”کلاچی“ کے نام سے مشہور ہوا اور آگے چل کر کراچی ہوگیا۔

کراچی کے آس پاس برباد گاﺅں میں آثار قدیمہ کے نشانات ملے ہیں جو موھن جو داڑو جتنے پرانے ہیں۔ کچھ تاریخ نویسوں کا خیال ہے کہ یونان کا بادشاہ سکندر اعظم 324 قبل مسیح سندھ میں آئے تھے اور وہ ”کرو کالا“ نامی جس بندر پر لنگر انداز ہوئے تھے وہ کراچی تھا۔

یونان کے مشہور جغرافیہ دان بطلیموس نے 150 ء میں تیار کئے گئے سندھ کے نقشہ میں ”کالاکا“ یعنی ”کھڑک بندر“ بھی دکھایا ہے۔ یہ بندر حب ندی کے پاس راس ماڑی پر تھا وہاں ہندو تاجروں کی کوٹھیاں تھیں۔ بھیرومل مہر چند نے اس کو ”کھارک شہر“ کہا ہے اسی بندر کے برباد ہونے کے بعد یہی تاجر ”کلاچی“ آکر بسے جو ترقی کرتے کرتے کراچی بن گیا۔

اس پورے علاقے کی تجارت اسی بندرگاہ سے ہوتی تھی۔ حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی ؒ نے ”سر سریراگ“ اور ”سر سامونڈی“ میں ان تاجروں کا ذکر کیا ہے جو یہاں سے تجارتی سامان دوسرے ممالک میں لے جاتے تھے۔ ”مورڑے ئیں مانگر مچھ“ (مورڑو اور مگر مچھ) کی لوک کہانی بھی کراچی سے وابستہ ہے۔ لطیف سائیں نے ”سر گھاتو“ میں اسی کہانی کا ذکر کیا ہے۔

کلہوڑہ دور حکومت میں کلاچی کے چاروں طرف کچا قلعہ بنایا گیا تھا۔ جس کو ”کلاچی کوٹ“ کہا جاتا تھا اس کے آنے جانے کے دو دروازے تھے، جن میں سے ایک سمندر کی طرف نکلتا تھا، جس کو ”کھارا در“ کہا گیا دوسرا لیاری ندی کی طرف تھا جس کو ”مٹھو در“ کہا گیا۔ اب جہاں سندھ مدرسہ ہے وہاں پہلے ”قافلہ سرائ“ یعنی قافلوں کے رکنے کی جگہ تھی جہاں تاجران کے قافلے آکر رکتے تھے۔

1843ع میں انگریزوں نے سندھ پر قبضہ کرکے کراچی کو اس کا دارالخلافہ بنایا۔ انگریز دور حکومت میں کراچی ایک بڑی بندرگاہ بن گئی۔
1947ء میں پاکستان بننے کے بعد کراچی کو ملک کا دارالحکومت بنایا گیا۔ جس کو بعد میں اسلام آباد منتقل کیا گیا۔ موجودہ دور میں کراچی دنیا کے بڑے شہروں اور بندرگاہوں میں سے ایک ہے۔ یہاں بین الاقوامی ہوائی اڈہ بھی ہے۔

کراچی میں مختلف زبانیں بولنے والے، پاکستان کے تمام علائقوں کے لوگ رہتے ہیں۔ اس لئے اس کو ”چھوٹا پاکستان“ بھی کہا جاتا ہے۔ پاکستان کے بانی حضرت قائداعظم محمد علی جناح ؒ کراچی میں پیدا ہوئے اور ان کی مزار بھی کراچی میں ہے۔ اسی لئے کراچی کو ”قائد کا شہر“ بھی کہتے ہیں۔ رات کو کراچی کی شاہراہوں اور عمارتوں کی روشنیوں کو دیکھتے ہوئے کراچی کو ”روشنیوں کا شہر“ بھی کہتے ہیں۔

کراچی میں کئی تفریح کے مقامات ہیں۔ جیسے کلفٹن، منہوڑہ، منگھوپیر، عبدﷲ شاہ غازی۔ عبد اللہ شاہ غازی اور منگھو پیر پر بڑے میلے لگتے ہیں۔ سندھ اسمبلی، سندھ ہائی کورٹ، سندھ مدرسہ، خالق ڈنو ہال، ڈینسو ہال، فریئر ہال تعمیراتی فن کے شاہکار ہیں۔ اس کے علاوہ ہل پارک، جانورں کا باغ (گارڈن) سفاری پارک، عزیز بھٹی پارک دیکھنے کے قابل ہیں۔ یہاں پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن اور ٹیلویژن سینٹر بھی ہے۔

کراچی سندھ کا ادبی، ثقافتی اور صنعتی شہر بھی ہے۔ سندھی زبان میں کہتے ہیں کہ ”جيڏا اُٺ تيڏا لوڏا “ یعنی کراچی شہر جتنا بڑا ہے اتنے ہی اسکے مسائل بھی بڑے بڑے ہیں۔ مردم شماری میں اضافہ کی وجہ سے رہائش، پینے کا صاف پانی، گندے پانی کی نکاسی، صحت و صفائی، بجلی و ٹریفک کے مسائل دن بدن بڑھ رہے ہیں۔ بڑا صنعتی شہر ہونے کی وجہ سے یہاں بڑے بڑے کارخانے ہیں۔ جیسے پاکستان اسٹیل مل، ان کارخانوں میں ہزارہا مزدور کام کرتے ہیں۔ ان کارخانوں سے نکلنے والا دھواں اور جلا ہوا تیل آلودگی کا باعث بنتا ہے۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لئے سرکار کوشش کر رہی ہے۔ ہم پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم اپنے قائد کے شہر کو صاف ستھرا رکھیں اور اسے صحیح معنوں میں روشنیوں کا شہر بنائیں۔

Comments

You May Like

You May Like

WhatsApp

Archive

Show more