میر عبدالحسین خان ”سانگی“ سندھی غزل کا بادشاھ


میر عبدالحسین خان ”سانگی“ سندھ کے آخری حاکم میر محمد نصیر کے پوتے تھے۔ 1843ء میں سندھ پر قبضہ کرنے کے بعد انگریزوں نے میر محمد نصیر خان کو جلا وطن کرکے کلکتہ میں قید کردیا۔ ان کے ساتھ ان کے دو بیٹے میر محمد حسن علی خان اور میر عباس علی خان بھی تھے۔

میر نصیر خان ایک خوددار محب وطن تھے، انہوں نے کبھی بھی کسی انگریز کو سلام نہ کیا اور نہ ہی کوئی امداد قبول کی۔ آپ جلا وطنی کی حالت میں کلکتہ میں 1845ء میں انتقال کر گئے۔

میر عباس علی خان نے ایک انگریز خاتون سے شادی کی، جس کو بعد میں بیبی بلقیس کے نام سے پکارا گیا۔ میر عبدالحسین خان اسی خاتون کے بطن سے 1851ء میں کلکتہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے پیدا ہونے کے چھ دنوں کے بعد ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا۔

میر عبدالحسین خان کی ابتدائی تعلیم اور تدریس کیلئے کلکتہ کے ایک عالم، شاعر اور کاتب مرزا حسن علی خان ”وفا“ کو مقرر کیا گیا۔ جنہوں نے انہیں قرآن شریف اور فارسی کی تعلیم دی، مگر ابھی تعلیم مکمل ہی نہیں ہوئی تھی کہ میر صاحب کی واپسی سندھ میں ہوئی، میر عبدالحسین خان 1859ء میں حیدرآباد سندھ پہنچے اور ان کی پرورش ان کی دادی شہربانو نے کی۔

میر عبدالحسین خان کی اعلیٰ تعلیم کیلئے آخوند احمد مقرر کیا گیا۔ آخوند صاحب ہالا پرانا کے مشہور سانونی آخوندی (مولویوں) میں سے تھے۔ اسی عرصہ میں میر عبدالحسین خان نے نہ صرف فارسی زبان کے ادب پر عبور حاصل کیا، بلکہ استاد کے شاعرانہ ذوق کا ان پر بہت اثر ہوا اور ان کی طبیعت شاعری کی طرف مائل ہوگئی۔

میر عبدالحسین خان کو 1869ء میں ہز ہائینس کا خطاب ملا اور انہیں آٹھ سو ماہانہ پینشن ملنے لگی۔

میر صاحب کو شکار کا شوق بھی ورثہ میں ملا تھا۔ وہ اپنے چچا میر محمد حسن علی خان کے ساتھ ”مہران کی کیٹی“ میں شکار پر جاتے تھے، اس کیٹی میں ان کی ملاقات حاجراں سے ہوئی، جو بعد میں ان کی جیون ساتھی بنی۔ ”سانگی“ کی شاعری میں مہران کی کیٹی کا بہت ذکر ہے۔

میر عبدالحسین خان ”سانگی“ کو حضرت شاھ عبداللطیف بھٹائی ؒ سے بڑی عقیدت تھی۔ وہ جب اکیلے ہوتے تو ہر جمعرات کو گھوڑے پر سوار ہوکر روایتی لطیفی راگ سننے کیلئے بھٹ شاہ جاتے تھے اور صبح کو واپس حیدرآباد آجاتے۔ اسی سفر میں بعد میں حاجراں بھی شریک ہوگئی۔ کچھ وقت کے بعد حاجراں کا بھی انتقال ہوگیا، جس کو حضرت شاھ عبداللطیف بھٹائی ؒ کے روضہ مبارک کے قریب دفنایا گیا۔ اس صدمی کے بعد ”سانگی“ پرسوز کافیاں کہنے لگے۔ اور اپنا تخلص ”سانگی“ رکھا۔

1877ء میں میر عبدالحسین خان کی شادی ڈاکٹر رائیٹ کی بیٹی سے ہوئی۔ یوں ان کی گھریلو زندگی میں سکون اور توازن آیا۔ ان کی بیگم بڑی بااخلاق اور باشعور خاتون تھی۔ اسلام میں آکر میر صاحب سے شادی کی تھی۔ مختصر آمدنی ہونے کے باوجود گھر کا انتظام اعلیٰ معیار کے مطابق چلایا۔ وہ، سانگی کے ساتھ مہران کی کیٹی کے شکار میں بھی شریک رہی۔ سندھی سیکھ کر”سانگی“کے علمی ادبی ذوق میں بھی شریک ہوگئی۔

میر صاحب ایک باوقار شخصیت کے مالک تھے۔ وہ اگرچہ شاہی خاندان کے فرد تھے، مگر طبیعت فقیرانہ تھی۔ کم اور آھستہ آھستہ بولتے تھے۔ ان کی گفتگو سنجیدہ اور پر معنیٰ ہوتی تھی۔ کبھی بھی کسی کو تکلیف نہیں دی اور نہ ہی کسی کو کبھی بد دعا دی۔

ایک بار نوکر نے کہا کہ فلاں شخص نے مجھے اور آپ کو برا بھلا کہا ہے۔ نوکر کو سانگی نے جواب دیا کہ ”بیٹا! میں نے انہیں معاف کردیا ہے اور آپ بھی اس کو معاف کردیں۔

سانگی“ بڑے خوددار تھے۔ وہ کمزوروں کے ساتھ کمزور اور طاقتور کے ساتھ طاقتور بن جاتے تھے۔ انگریز افسران سے ملنے کے وقت، بلند حوصلے اور خودداری کو کبھی بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ گورنر یا کمشنر سے رخصت ہوتے وقت ہاتھ ملا کر فوراً پیٹھ دے کر جلدی جلدی چلے جاتے تھے، جب کہ وہ ابھی مشکل سے گاڑی میں سوار ہوتے تھے۔

میر عبدالحسین خان فرسٹ کلاس آنرری مجسٹریٹ تھے۔ فیصلوں میں حق اور انصاف کیا اور اپنی کورٹ کا کام خوبصورت طرز پر چلایا۔ انہوں نے کسی کو بھی سزا نہیں دی۔ زیادہ تر فریقین کے درمیاں بات چیت کے ذریعے مسئلہ حل کردیتے تھے۔ ایک مجرم کی تو ضمانت خود دی۔

میر عبدالحسین خان نے دنیا کے کاروبار، گھریلو مسائل اور شکار کا شوق ہوتے بھی تصنیف اور تالیف پر کافی توجہ دی۔ اسی سلسلے میں انہوں نے کئی علمی اور ادبی کارنامی سر انجام دیئے۔ اس دور کی تمام رائج اصناف پر توجہ دی اور عالموں، ادیبوں اور شاعروں سے ملاقاتیں کیں اور ان کی قدر کی۔

سانگی“نے سندھی، فارسی، سرائکی اور اردو میں شاعری کی ہے۔ انہیں سندھی غزل کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔ ان کی نثری تصانیف میں تخلیقی اور تحقیقی موا د شامل ہے۔ انہوں نے نثر میں افسانے اور داستانیں بھی لکھیں۔ ان کی نثری تصانیف میں لطائف لطیفی بیحد اہم ہے۔ انہوں نے یہ کتاب فارسی نثر اور نظم میں تیار کی۔”لطائف لطیفی“حضرت شاھ عبداللطیف بھٹائی ؒ کی سوانح اور کلام کا ایک بنیادی تحقیقی ماخذ ہے۔ اسی کتاب کا سندھی ترجمہ بھی چھپ چکا ہے۔

میر عبدالحسین خان ”سانگی“ کا ایک عالیشان کتب خانہ بھی تھا۔ اس کتب خانہ میں نایاب کتب کی خاصی تعداد تھی۔ یہ کتب خانہ ”سانگی“ کے بعد آنے والی نسل کی ناقدری کے وجہ سے تباھ ہوگیا۔

میر عبدالحسین خان ”سانگی“ 12 جون 1924 ء کو اس دنیا فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کی وصیت کے مطابق انہیں حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ کے روضہ مبارک کی چھاﺅں میں سپرد خاک کردیا گیا۔

Comments

Popular posts from this blog

وطن جي حب

اسان جو وطن (پيارو پاڪستان)

محنت ۾ عظمت