جدید وجودیت (Existentialism) کے
پہلے فلسفی میں شمار کیے جانے والے مبلغ، شاعر، سماجی نقاد اور مذہبی مصنف اور
ڈینمارک سے تعلق رکھنے والے سورین کرکیگارڈ(Soren Kierkegaard) کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں
ہے۔
سورین کرکیگارڈ نے کہا:
’’خالی باتوں سے کام نہیں چلے گا۔ عمل سے زندگی بنتی ہے، عقیدت و اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ معاشرے کا کارآمد فرد بننے کے لیے تعلقاتِ عامہ استوار کریں‘‘۔
· ڈنمارک کے سب سے
بڑے شہر اور دارالحکومت کوپن ہیگن میں 5 مارچ 1813ء کو پیدا ہونے والے فلسفی، مبلغ
اور ثقافتی ناقد سورین کرکیگارڈ کی حیات تلاطم خیز رہی۔
· کرکیگارڈ کے والد
مائیکل پیدرسین کرکیگارڈ ایک ریٹائرڈ بزنس مین تھے، جنہوں نے اپنی پوری زندگی بچوں
کی نشوونما میں وقف کر دی تھی۔
· کرکیگارڈ نے 1830ء
میں کوپن ہیگن یونیورسٹی میں داخلہ لیا، تاہم 1841ء تک اپنی تعلیم مکمل نہ کر سکے۔
· کرکیگارڈ کی زندگی
پے درپے حادثات کا شکار رہی۔
· ہیگل کی طرح مذہبی
تعلیم کے حصول کے لیے انھوں نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا، تاہم سچ کی تلاش میں ادب
اور فلسفے کے مطالعہ میں ڈوب گئے۔
· یونیورسٹی میں
تعلیم کے دوران ڈون جوآن اور فاؤسٹ کے مطالعے نے وجودی ماڈلز کی تجسیم میں اہم
کردار ادا کیا۔
· یہیں سے وہ اپنے
والد اور ان کے عقیدے سے باغی ہوئے، مگر والد کی وفات کے بعد 1838ء میں والد کے
عیسائی عقیدے کو قبول کیا اور گھر لوٹ آئے اور پھر سنجیدگی سے تعلیم پر توجہ دی۔
· سورین کرکیگارڈ نے
عمر کا بڑا حصہ کوپن ہیگن میں گزارا۔ وہ چار بار برلن اور ایک بار سوئیڈن گئے۔
کوپن ہیگن تب بھی نہ چھوڑا جب کورسینر جریدے نے ان کا مذاق اڑایا۔
· سورین کرکیگارڈ راہ
چلتے لوگوں سے یوں بات چیت کرتے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو، معمول کی طرح کیفے جاتے
اور تھیٹر دیکھتے۔
· سورین کرکیگارڈ ریڑھ
کی ہڈی میں کمزوری کے باعث وہ گر گئے تھے، جس کے بعد فیڈرل اسپتال میں ایک ماہ بعد
بستر علالت پر رہے اور بالآخر 42 سال کی عمر میں 11 نومبر 1855ء کو فوت ہو گئے۔
· سورین کرکیگارڈ اپنے
پیچھے 30 کتابوں کی صورت فلسفیانہ سوالات کے ایسے مرغولے چھوڑ گئے، جنھیں بعداز اںجین
پال ساوتر نے سلجھایا اور بیسویں صدی کے عظیم وجودی فلسفی کہلائے۔
·
’’سقراط کے نقطۂ نظر سے حکمت کا تصور‘‘ نامی مقالہ جون 1841ء میں
مکمل کیا اور ستمبر میں اس کا دفاع کیا۔
· ڈبلیو ایچ آڈن، بورخیس،
ڈون ڈی کلو، ہرمن ہیس، فرانز کافکا، ڈیوڈ لاج، فلینری اوکونر، واکرپرسی، رلکے،
جے ڈی سلنگز اور جان اپ ڈائک کی تحریروں میں آپ کو کرکیگارڈ کے وجودی فلسفے کی
گونج سنائی دے گی۔
طنز و مزاح کے تاروپود میں ڈنمارک کے
چرچ (لوتھرن) پر ایسے نشتر چبھوئے کہ 1849ء میں ’’سکنس اِن ٹو ڈیتھ‘‘ عیسائیت کے
لیے خطرہ قرار دی گئی مگر وہ عیسائیت پر تنقید سے باز نہیں آئے۔
کانٹ اور رومانی تحریک کی اثرپذیری سے
’’جمالیات ‘‘
(Aesthetics) کی طرف راغب ہوئے، جسے اُنہوں نے اخلاقیات کے دائرے میں مرتب کرتے ہوئے
کہا:
· خدا کی آواز سے
روح کی تطہیر ہوتی ہے۔
· مذہبی زندگی تین
جہات ایک کشفِ ذات دوسرا حسن سلوک اور تیسرا سچائی پر مشتمل ہے۔
· موضوعیت و معروضیت
کے مابین فرق کو تلاش کرنے کا بنیادی اصول یہ ہے کہ ایسے وجودی معاشرے کو تشکیل
دیا جائے جہاں باعمل علم، انسان کا سب سے اعلیٰ ترین منصب و ہدف ہو۔
· وجود کو وجود سے
نہیں، عقیدت سے سمجھا جا سکتا ہے، ہیگل کی اخلاقیات عقیدے کی وضاحت نہیں کر سکتی۔
منطق سے خدا کے وجود کو ثابت کیا جا سکتا ہے۔
عیسائی اخلاقیات کو سنوارنے کے لیے وہ
فرد کے ذاتی انتخاب کو فوقیت دیتے ہیں اور آئیڈیل تصور کی نفی کرتے ہوئے کہتےہیں:
· عمل کے بغیر علم
بے کار ہے۔
· فرد کے لیے وہی سچ
ہے جو اس کا ذاتی سچ ہے۔
· کوئی بھی کام شروع
کرنے سے پہلے خود کو جانیں تبھی کام کی سمت کا تعین کر سکیں گے۔
· اصل علم لاعلمی سے
ہوتا ہے، جیسے خدا نے یہ دنیا عدم سے بنائی۔
· ہر نسل انفرادی
طور پر علم کی تلاش شروع کرتی ہے۔
· کوئی بھی فرد
پچھلی نسل سے نہیں سیکھتا، ہر ایک کی راہ منفرد ہے۔
سورین کرکیگارڈ نہ صرف بیسویں صدی میں
وجودیت و پروٹسٹنٹ مذہبی نقطۂ نظر پر اپنے دیرپا اثرات مرتب کیے بلکہ اپنے وقت کے
مذہبی عالموں اور فلسفیوں کے قائم کردہ تصورات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے انسانی
وجود کو آشکار کیا۔
سورین کرکیگارڈ نے اخلاقیات، منطق،
نفسیات اور فلسفہ مذہب کو اپنے ناقدانہ علامتی انداز میں اس طرح آشکار کیا کہ
تقدس کے نام پر خرید و فروخت کرنےوالے کلیسا کو کاری ضرب پہنچی۔
جدید وجودیت کے بانی سورین کرکیگارڈ نے
کلیسا کی بالادستی ختم کرکے فرد کے وجود کو وقار بخشا اور بابائے وجودیت کہلائے۔
سورین کرکیگارڈ نے کہا، ’’موضوعیت سچ ہے
اور سچ موضوعیت ہے‘‘۔
بیسویں صدی کے ادب پر ان کے گہرے اثرات
مرتب ہوئے۔
وہ نفسیات بالخصوص کرسچن نفسیات، وجودی
نفسیات اور تھراپی کے بانیوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ مارٹن ہیڈگر اور جین پال
سارتر ان کے سخت ناقدین رہے۔
ان کے خیالات ہیگل اور کانٹ
سے اثر پذیر رہے۔ بات سے بات نکال کر توڑ تک پہنچنے اور راہ میں اُٹھنے والے
سوالات کو چھوڑ کر وہ آنے والے فلسفیوں، ادیبوں، مصوروں اور ماہرین تعمیرات کے
لیے رول ماڈل بن گئے۔
Comments
Post a Comment