تم جانتے نہیں میں کون ہوں۔۔۔؟
· تم جانتے نہیں میں کون ہوں۔۔۔؟
·
تمہیں بتاؤں میں
کون ہوں۔۔۔؟
· میری پہنچ کہاں کہاں تک ہے ۔۔۔؟
· میں کیا کیا کرسکتا ہوں ۔۔۔؟
· میرا ایک فون تمہیں کہیں سے کہیں پہنچا دے گا۔۔۔
· نوکری پہ رہنا ہے یا نہیں۔۔۔
· تم جانتے نہیں کہ میں کس کی بیوی ہوں تمھارا کیا حشر کر سکتی ہوں۔۔۔؟
· تم جانتے نہیں میں کس کا بیٹا ہوں وہ تمھارا کیا حال کریں گے۔۔۔؟
· میرے بھائی کو تم جانتے نہیں۔۔۔؟
· میرے انکل کون ہے تم کو پتا ہوتا تو اتنی ہمت نہ کرتے۔۔۔؟
اس طرح کے اکثر جملے تو آپ نے سُنے ہونگے۔
یہ وہ جملے
ہیں جو ہمارے ہاں ضرورت پڑنے پہ سامنے والے کو نیچا دکھانے یا رعب جمانے کے لئے کہے
جاتے ہیں۔
· اور بولنے والا فخر محسوس کرتا ہے۔
· اور دیکھنے والے متاثر ہوتے ہیں کہ کتنے طاقتور لوگ ہیں کیسے عام لوگوں
کو ڈرا دھمکا کر رکھتے ہیں۔
یہ کلچر
ہمارے معاشرے میں اتنا عام ہو چکا ہے کہ اب عام لوگ بھی ان افراد کو بہت آرام سے
پہچان لیتے ہیں اور ان کو ناچاہتے ہوئے بھی عزت دیتے ہیں۔
ان با اثر
لوگوں کی کالے کالے شیشے والی یہ گاڑیاں اور ان گاڑیوں کے
پیچھے بیٹھے ہوئے عجیب و غریب (ڈراؤنے) شکل میں ان کے "گارڈز" کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ جب یہ باہر نکلیں تو لوگ
ان کو دیکھ کر ڈر جائیں، فوراً راستہ دے دیں، جس کام کے لئے یہ آئے ہیں وہ کام فورا
کردیا جائے۔
آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے؟
لیکن کیا
کسی کو اندازہ ہے کہ اس کی وجہ سے عام لوگوں کی نفسیات پہ کتنا غلط اثر پڑ رہا ہے۔
کس قدر وہ frustrated ہو رہے
ہیں؟
اور اپنے
اندر بھرے غصے کو وہ کس طرح غلط طریقے سے باہر نکالتے ہیں؟
معاشرے سے
چڑ ہونا۔
ملک کو برا
بھلا کہنا۔
ملک چھوڑ کے
جانے کی بات کرنا۔
کیا یہ سب
درست ہو رہا ہے؟
کیا ہم کو
اندارہ بھی ہے کہ ہماری نئی نسل کس قدر ذہنی دباؤ کا شکار ہے؟
صرف اور صرف
اس بے اعتدالی کی وجہ سے۔
یہ نسل
انسانوں کی برابری چاہتی ہے، انسانی مساوات چاہتی ہے۔ لیکن متواتر انسانی حقوق کی
پامالی نے اسے مایوس اور بد دل کردیا ہے۔
قانون سب کے
لئے برابر ہو۔ کوئی کسی کو اپنی پہچان سے نہ ڈرا سکے۔
Comments
Post a Comment