مٹی اور پانی کے اس جہاں میں انسان کو
زندگی صرف ایک بار ملتی ہے۔ کچھ لوگ اس زندگی میں صرف اپنے لیئے جیتے ہیں۔ ایسے
لوگ صرف مادی چیزوں کو حاصل کرنا زندگی کا مقصد سمجھتے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے
ہیں جو دوسروں کیلئے جیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی زندگی دوسرے لوگوں کے فلاح و بہبود
کیلئے وقف ہوتی ہے۔ مولانا تاج محمود امروٹی بھی ایسے عظیم لوگوں میں سے ایک تھے۔
مولانا تاج محمود امروٹی ”دیوانی“ گاﺅں،
ضلع خیرپور میں 1276 ھ 1895 ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام سید عبدالقادر عرف
بھورل شاہ تھا جو خود بھی ایک عالم اور نیک شخص تھے۔ مولانا امروٹی نے ابتدائی
دینی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ بعد میں گاﺅں اُلرا کے مولانا محمد قاسم سے قرآن
شریف اور مولانا عبدالقادر پنہواری سے علم حاصل کیا۔ کندھ کوٹ اور پنجاب کے مدرسوں
سے دینی علوم کی اسناد حاصل کیں۔ بھر چونڈی کے حافظ محمد صدیق سے روحانی فیض حاصل
کیا اور ان کو اپنا مرشد بنایا۔ مرشد ہی کے کہنے پر آپ ضلعہ سکھر کے گاﺅں امروٹ
میں ہمیشہ کیلئے آکر رہے۔ اس لیے انہیں مولانا امروٹی بھی کہا جاتا ہے۔
مولانا امروٹی نے سماجی برایوں کے خلاف
جہاد کیا اور انہوں نے اسلام کا انقلابی تصور پیش کیا۔ آپ نے امروٹ میں ایک مسجد
اور مدرسہ قائم کیا۔ آگے چل کر یہی مدرسہ ایک مثالی درسگاہ اور دینی تعلیم کا اہم
مرکز بن گیا۔ اسی مدرسہ سے مولانا عبیدﷲ سندھی اور دوسرے کئی مشہور علماء نے فیض
حاصل کیا۔ ان میں مولانا عبدالعزیز تھریچانی، مولانا عبدالقادر دین پوری، مولانا
حماد ﷲ ہالیجوی اور مولانا احمد علی لاہوری شامل ہیں۔ برصغیر کے نامور عالم مولانا
محمود الحسن، مولانا اشرف علی تھانوی اور مولانا حسین احمد مدنی بھی امروٹ آئے
تھے۔ اسی مدرسہ میں رائج نصاب کو وقت کے تقاضوں کے مطابق ترتیب دیا گیا۔ وہاں دینی
کتب کی لائبرری بھی قائم کی گئی۔ دینی ادب کی اشاعت کیلئے ”محمود الطالع“ نامی ایک
اشاعت گھر قائم کیا گیا۔ امروٹ جیسے چھوٹے قصبے میں پریس لگائی گئی اور ”ھدایت
الاخوان“ رسالہ جاری کیا گیا۔
مولانا امروٹی نے 1926 ء میں سکھر بیراج
کی کھدائی کے وقت مساجد کو مسمار کرنے کے خلاف زبردست تحریک چلائی اور ان مساجد کو
شہید ہونے سے بچالیا۔ انگریزوں کے پٹھو آریا سماج اور مہاسبھا جیسی کٹر ہندو
تنظیموں نے شدھی اور سنگھٹن تحریکیں چلائیں اور کئی مسلمانوں کو مرتد اور سنجوگی شیخ
بنایا۔ مولانا امروٹی نے تبلیغ کے ذریعے ان مرتدین کو دوبارہ اسلام کے دائرے میں
لائے۔ اس کے نتیجے میں مولانا کو اغوا کرنے اور مارنے کیلئے حملے کئے گئے۔ مگر آپ
ڈٹے رہے۔
مولانا امروٹی نے تحریک آزادی میں
بھرپور حصہ لیا ان تحاریک میں ”ترک موالات“ یا ”قطع تعلق“، ”خلافت تحریک“ اور ”ریشمی
رومال تحریک“ اہم ہیں۔ ”قطع تعلق تحریک“ جمیعت علماء ہند نے انگریزوں کے خلاف شروع
کی تھی۔ سندھ میں اس کے سربراہ مولانا تاج محمود امروٹی تھے۔
برصغیر کے مسلمانوں نے ترکی کے مسلمان
بھائیوں کی مدد کیلئے جہاد میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ اس کے متعلق خلافت کمیٹی
کی طرف سے لاڑکانہ میں بہت بڑا جلسہ ہوا اس جلسہ میں مولانا امروٹی اور دوسرے بڑے
علماء اور سیاستدانوں نے شرکت کی ان میں مولانا شوکت علی، مولانا عبدالباری،
مولانا ابوالکلام آزاد، شیخ عبدالمجید سندھی، سیٹھ عبدﷲ ہارون، رئیس غلام محمد
بھرگڑی، مولانا دین محمد وفائی وغیرہ شریک ہوئے۔ اسی جلسہ میں احتجاجی ہجرت کرنے
کا فیصلہ کیا گیا۔
سندھ سے مجاہدوں کا پہلا قافلہ بئریسٹر
جان محمد جونیجو کے سربراہی میں 9 جولائی 1920 ء کو لاڑکانہ سے افغانستان روانہ
ہوا اس قافلہ کو مولانا امروٹی پشاور تک چھوڑنے گئے۔
ان تحریکوں کو ناکام بنانے کیلئے انگریزوں
نے ہر حربہ استعمال کیا۔ مولانا امروٹی اور ان کے ساتھیون پر بغاوت کے الزامات
عائد کئے ان پر کڑی نظر رکھی گئی ان کو نظر بند بھی رکھا گیا۔ مگر یہ مرد مجاہد پہاڑ
کی طرح ڈٹے رہے۔
مولانا امروٹی شاعر بھی تھے اور ان کا
تخلص ”حسن“ تھا۔ آپ نے یوسف زلیخا عرف پریت نامو شاعری میں قلمبند کیا۔ کئی نعتیں
اور مولود شریف بھی کہے۔ ان کے قرآن شریف کے سندھی ترجمہ کو نہ صرف مستند مانا
جاتا ہے۔ بلکہ یہ ترجمہ ان کو ہمیشہ زندہ رکھنے کیلئے کافی ہے۔ مولانا تاج محمود
امروٹی نے 7 جمادی الثانی 1348 ھ 1929 ء میں وفات کی۔
Comments
Post a Comment