لولاڈی سلوا - برازیلی صدر


لولاڈی سلوا   Lula da Silva
بھوک صفر  (Hunger zero)
(برازیل کے 35 ویں صدر)
لولاڈی سلوا کا خیال تھا کہ:
’’ملک میں جب تک بھوک اور غربت رہے گی اس وقت تک لوگ اپنی صلاحیتوں سے پورا کام نہیں لے سکیں گے۔‘‘

لولاڈی سلوا کا منشور تھا کہ:
’’برازیل کے غریب اور محروم طبقوں کو زندگی کی سہولتیں فراہم کرنا اور بس۔‘‘
·       لولاڈی سلوا مزدور کے بیٹے ہیں۔
·       40 سال پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ لولاڈی سلوا کبھی برازیل جیسے ملک کا صدر بنے گا۔
·       پانچویں جماعت کے بعد خاندان کی پرورش کیلئے لوگوں کے جوتے پالش کرنے پر مجبور ہو گئے۔
·       لولاڈی سلوا  گلے میں جوتے پالش کرنے کی پیٹی لٹکا کر گلی گلی پھرتے تھے۔

پالش کی آمدنی گھر چلانے کے لیے ناکافی ہوگئی تو یہ دوسرے کاموں کی طرف متوجہ ہو گئے:
مثلاً :
لولا نے مونگ پھلی بیچنا شروع کر دی، اس سے بھی گزارا نہ ہو ا تو یہ لوہے کی ایک مل میں بھرتی ہو گئے، یہ سارا سارا دن لوہا کوٹتے، لوہے کی سرخ سلاخیں بھٹی سے کھینچتے، انھیں کاٹتے اور پھر اٹھا کر ٹرکوں پر لاد دیتے ، اسی دوران لولا ڈی سلوا کی ایک انگلی کٹ گئی لیکن انھوں نے ہمت نہ ہاری۔
25 سال کی عمر میں لولا ڈی سلوا کے ساتھ خوف ناک واقعہ پیش آیا۔ ان کی اہلیہ ماریا حاملہ تھیں، حمل کے آٹھویں مہینے زنانہ پیچیدگی پیدا ہوئی، یہ اہلیہ کولے کر اسپتال پہنچے لیکن ان کے پاس علاج کیلئے پیسے نہیں تھے، چناںچہ ان کی اہلیہ اور بچہ دونوں انتقال کر گئے۔
اس واقعے نے لولاڈی سلوا کو اندر سے ہلا کر رکھ دیا اور انھیں محسوس ہوا برازیل میں غریب طبقہ انتہائی کسمپرسی کے عالم میں زندگی گزار رہا ہے، ان لوگوں کودوائی اور تعلیم دونوں کی بنیادی سہولتیں حاصل نہیں ہیں چناںچہ لولا ڈی سلوا نے اسپتال کے کوریڈور میں کھڑے ہو کر طبقاتی تقسیم کے اس قلعے میں نقب لگانے کا فیصلہ کر لیا۔
انھوں نے اس نظام کو تبدیل کرنے کا عزم کر لیا۔ لولاڈی سلوا نے ٹریڈ یونین سے سیاست کا آغاز کیا، انھوں نے جلوس بھی نکالے، پولیس کے ڈنڈے بھی کھائے اور حوالات اور جیلیں بھی دیکھیں لیکن یہ ڈٹے رہے۔
لولا نے 1980ء میں اپنی سیاسی جماعت ’’ورکرز پارٹی‘‘ بنائی، یہ ملک کے مزدور اور غریب طبقے کی سیاسی جماعت تھی، اس کا ایک ہی منشور تھا، برازیل کے غریب اور محروم طبقوں کو زندگی کی سہولتیں فراہم کرنا اور بس۔
لولاڈی سلوا نے تین صدارتی الیکشن لڑے، وہ ان تینوں الیکشنوں میں ہار گئے لیکن ہمت نے شکست تسلیم کرنے سے انکار کر دیا یہاں تک کہ یہ یکم جنوری 2003ء کو برازیل کے صدر بن گئے۔

لولاڈی سلوا کا صدر بن جانا جہاں دنیا بھر کے لیڈروں کیلئے حیران کن تھا وہاں ان کی کامیابی نے برازیل کے روایتی سیاست دانوں اور اشرافیہ کو بھی جڑوں سے ہلا دیا اور یہ لوگ ملک سے فرار ہونا شروع ہو گئے۔
لولاڈی سلوا کے صدر بننے سے پہلے برازیل میں لا اینڈ آرڈر کی صورتحال یہ تھی کہ پولیس رات کے وقت ریوڈی جینرو کی سڑکوں پر نکلتی تھی اور فٹ پاتھ پر سوئے لاوارث بچوں کو گولیوں کا نشانہ بنانا شروع کر دیتی تھی، ان بچوں کی نعشیں بعدازاں اجتماعی قبروں میں دفن کر دی جاتی تھیں، لولاڈی سلوا نے برازیل کی غریب کلاس کو حوصلہ، ہمت اور اعتماد دیا، انھوں نے سب سے پہلے ’’بھوک صفر‘‘ کا منصوبہ شروع کیا۔
لولاڈی نے بولسا فیملیا(Bolsa Familia) کے نام سے غربت کے خاتمے کا پلان لانچ کیا اور سات سال میں غربت ختم کر دی، آج برازیل کا شمار دنیا کے ان چند ملکوں میں ہوتا ہے جن میں کوئی شخص رات کو بھوکا نہیں سوتا، جہاں کوئی غریب نہیں۔
اس کے بعد انھوں نے ’’ایجوکیشن فار آل‘‘ پر کام شروع کیا اور تعلیم کو ان تمام گھرانوں تک پہنچا دیا جن کے بچے اسکول کا صرف خواب دیکھ سکتے تھے۔
اس کے بعد انھوں نے صحت پر کام شروع کیا اور دو سال بعد ملک میں کسی مزدور کی بیوی اسپتال، ڈاکٹر اور دوا کی کمی کا شکار نہیں تھی۔
لولا ڈی سلوا کا دور دسمبر2010ء میں ختم ہو گیا مگر یہ اب بھی سڑکوں اور محلوں میں عوام کی خدمت کر رہے ہیں۔

Comments

Popular posts from this blog

اسان جو وطن (پيارو پاڪستان)

وطن جي حب

محنت ۾ عظمت