· جب عمر ڈھلتی ہے، چہرے پہ جھریاں پڑنا شروع ہوتی ہیں۔
· جب لڑکیاں انکل کہنے لگ جاتی ہیں۔
· جب لڑکے بزرگ سمجھ کر آپ کے لئے سیٹ خالی کر دیتے
ہیں۔
·
مرنے کا
شوق کسی کو بھی نہیں ہوتا، انسان کی دائمی زندگی کی خواہش اُس وقت سے ہے جب سے وہ
دنیا میں آیا ہے۔
· جو لوگ بڑھاپے میں موت کی آرزو کرتے نظر آتے ہیں
دراصل وہ موت نہیں مانگ رہے ہوتے بلکہ بڑھاپے سے نجات چاہ رہے ہوتے ہیں۔
· اگر لوگ صدا جوان ہی رہیں تو کوئی بھی شخص چاہے وہ
دو سو سال پرانا ہی کیوں نہ ہو، کبھی موت نہیں چاہے گا۔
ویسے اپنے یہاں تو لوگ خود کو
بوڑھا سمجھتے ہی نہیں، نوّے سال کا بابا بھی اگر اپنے سے دس سال چھوٹے بزرگ کو دیکھ
لے تو اسے ’’منڈا‘‘ کہہ کر اس لئے بلاتا ہے تاکہ خود اسے بھی لوگ یہی کہہ کر بلائیں۔
تاہم کہنے سننے سے اگر فرق پڑتا
تو ہر کوئی ہمیشہ منڈا ہی رہتا، کبھی بوڑھا نہ ہوتا۔
مصیبت یہ ہے کہ:
· جب عمر ڈھلتی ہے، چہرے پہ جھریاں پڑنا شروع ہوتی ہیں۔
· جب لڑکیاں انکل کہنے لگ جاتی ہیں۔
· جب لڑکے بزرگ سمجھ کر آپ کے لئے سیٹ خالی کر دیتے
ہیں۔
تو بندہ سوچنے لگتا ہے کہ:
· اب اور کتنے برس میں جی لوں گا۔
· میرے بعد بھی کیا یہ دنیا اسی طرح چلتی رہے گی۔
· کیا میں اِس کی رنگینیاں مزید نہیں دیکھ پاؤں گا۔
· کاش کہ مجھے موت نہ آئے!
مگر ہم لوگ یہ باتیں منہ سے نہیں
کہتے، دل میں رکھتے ہیں، کہتے ہم یہ ہیں کہ:
· بہت جی لیا۔
· بھرپور زندگی گزار لی۔
· اِس دنیا کی اب اور تمنا نہیں۔
· خدا ہمیں اٹھا لے، وغیرہ۔
دراصل ہمیں موت کا اتنا خوف نہیں
جتنی زندگی سے محبت ہے، اِس دنیا میں خدا نے زندگی میں بہت کشش رکھی ہے، یہاں سے
جانے کا کسی کو دل نہیں کرتا۔
مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں یقین ہوتا ہے کہ:
انہیں موت نہیں آئے گی لہٰذا وہ
فرعون بن کر زندگی گزارتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ایک دن فراعینِ مصر کی طرح وہ بھی
اپنے گریڈ اور رتبے کے ساتھ دوبارہ دنیا میں واپس آئیں گے اور پھر لوگ اِن کے
سامنے ہاتھ باندھ کر کہیں گے کہ:
مائی باپ آپ کے بغیر گزارا نہیں
ہو رہا تھا، سو ہماری زندگی کی باگ ڈور سنبھال لیں!
Comments
Post a Comment