گورکھ ہل اسٹیشن --- گُرو ”گورکھ ناتھ“
سندھ کے نقشہ پر نظر کریں گے تو پہاڑوں
کی ایک قطار، سندھ کو صوبہ بلوچستان سے الگ کرتا ہے۔ پہاڑوں کی اسی قطار کا نام
”کھیر تھر“ ہے۔ کھیر تھر پہاڑ لاڑکانہ اور دادو کے مغرب میں واقع ہیں۔ اسی پہاڑی
قطار کی شاخیں ہیں اور ان کے درمیاں کئی خوبصورت، پرکشش اور سرسبز وادیاں ہیں۔ یہ
وادیاں کچھ دادو اور کچھ لاڑکانہ ضلعہ میں ہیں۔
یہ قدرت کا کرشمہ ہے کہ کھیر تھر کے
شمالی حصے میں بلند چوٹیاں ہیں اور جنوبی حصے میں بڑی برساتی ندیاں ہیں۔ ان میں
اہم برساتی ندی ”نئن گاج“ ہے جس کا پانی منچھر جھیل میں جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ندی
”مہن“ اور ندی ”باران“ کا پانی دریائے سندھ میں جاتا ہے۔ یہ تمام برساتی ندیاں پانی
کے ساتھ مٹی بھی لاتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان وادیوں میں فصل بھی اچھی ہوتی ہے اور
”گھریلو جانور“ (گائیں، بھیڑ اور بکریوں) کیلئے چارہ اور گھاس بھی بہت ہوتا ہے۔
کھیر تھر پہاڑ کے جنوب میں تین بلند
پہاڑی چوٹیاں ہیں۔ جن میں بلند و بالا چوٹی ”گورکھ“ ہے۔ اس پہاڑی کی بلندی سمندر کی
سطح سے پانچ ہزار چھ سو فٹ ہے یہاں کی موسم خشک مگر دل کو بھانے والی اور صحت بخش
ہے۔ یہاں گرمیوں کے موسم میں گرمی سات سینٹی گریڈ سے تیس سینٹی گریڈ رہتی ہے اور
سردیوں میں سردی منفی پانچ سینٹی گریڈ تک چلی جاتی ہے۔
گورکھ ہل کی چوٹی کی سطح کچھ ناہموار ہے
جو تقریباً تین چار سو ایکڑ ہے۔ چوٹی پر
قدرتی تالاب بھی ہیں جہاں بارش کا پانی جمع ہوتا ہے۔ یہ پانی پینے اور کھیتی باڑی
میں بھی کام آتا ہے۔ گورکھ ہل کی چوٹی کے جنوب میں تقریباً چار میلوں کے مفاصلے پر
ھینگڑں نامی برساتی ندی ہے جس میں ہمیشہ پانی بہتا رہتا ہے اور اسی پانی سے کھیتی
باڑی بھی کی جاتی ہے۔
بارش ہونے کے بعد گورکھ کی پہاڑی پر قسم
قسم کی جڑی بوٹیاں نکلتی ہیں جن کی خوشبوء سے پورا ماحول معطر ہوجاتا ہے۔ ان جڑی
بوٹیوں میں سے ایک کا نام ”حسینی“ ہے۔ چوٹی پر طرح طرح کی بیلیں بھی ہوتی ہیں جیسے:
کھپ، اسپیگر، کاندھار وغیرہ۔ یہ جڑی بوٹیاں اور بیلیں دیسی دواﺅں میں کام آتی ہیں۔
گورکھ ہل پر بادام، انجیر، جامن، شاہ
بلوط اور انگور کے درخت اور بیلیں بہت ہوتی ہیں۔ یہ درخت اور بیلیں قدرتی طور پر
ہوتی ہیں جس کی وجہ سے ان میں پھل بھی کم ہوتا ہے اور پھلوں میں مٹھاس بھی کم ہوتی
ہے۔ اس کے علاوہ وہاں بیر، ببول، کھجی، کہو، لوھیڑو، آک، لئو، کنڈو اور پیش
(درختوں کے نام) کے درخت بہت نظر آتے ہیں۔ بیابانوں اور میدانوں میں کھیتی باڑی
ہوتی ہے۔ گندم، تل، گوار پھلی، جوار یہاں کی اہم فصلیں ہیں۔
جنگلی زندگی کے لحاظ سے گورکھ ہل اور
دوسری پہاڑیاں مالا مال ہیں۔ وہاں پہاڑی غاروں، تالابوں اور برساتی ندیوں میں جنگلی
بکرے، سرھ (پاڑہ کی قسم) خنزیر، ہرن، مگر مچھ اور کبھی کبھار چیتے اور بھیڑیے بھی
نظر آتے ہیں۔ میدانوں میں پٹ تیتر جنگلوں میں بگڑو اور سیاہ تیتر عام اور بہت نظر
آتے ہیں۔ ان چوٹیوں پر جنگلی جانوروں کے تحفظ کیلئے شکار پر مکمل پابندی ہونی
چاہئے۔ شکار پر پابندی نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے جاندار سخت خطرے میں ہیں۔ تلور
اور پاڑہ کی نسل تو تقریباً ختم ہو چکی ہے۔
گورکھ ہل اور دوسری پہاڑیوں پر الکھانی،
برفت، کلوئی، رند اور دوسرے قبیلوں کے لوگ رہتے ہیں۔ وہ لوگ خوشحال ہیں اور بھیڑ
بکریاں پالتے ہیں۔ کچھ لوگ گائیں بھی پالتے ہیں۔ سواری کیلئے اونٹ اور گدھے
استعمال کرتے ہیں۔ وہ پہاڑی لوگ بہت سیدھے سادے، مھربان، مہمان نواز، محنتی اور
خوش خلق ہیں۔ یہاں کی عورتیں بھی ہنرمند، محنتی اور ہمت والی ہیں۔ وہ چٹایاں بُنتی
ہیں، چرواہے کا کام کرتی ہیں، دودھ کی چوائی کرتی ہیں، رسیاں بناتی ہیں اور اپنے
مردوں کے ساتھ کھیتی باڑی بھی کرتی ہیں۔ یہ عورتیں سلائی اور کڑھائی کے کام میں بھی
مہارت رکھتی ہیں۔
سردیوں کے موسم میں یہ لوگ پہاڑوں سے
اتر کر گاج ندی میں اپنے گھر بناتے ہیں اور وہاں کھیتی باڑی بھی کرتے ہیں۔ کچھ لوگ
شہروں میں محنت مزدوری کرنے کیلئے چلے جاتے ہیں اور کچھ لوگ کاچھے اور منچھر جھیل
کے علائقے کی زمین پر کھیتی باڑی کرتے ہیں اور فصل کی کٹائی کے بعد اپنا حصہ لےکر
پھر پہاڑوں پر چلے جاتے ہیں۔
قدیم دور سے لیکر انگریز دور تک جوگی، سنیاسی، سامی اور سادھو سنت اسی پہاڑی پر جاکر ریاضت کرتے تھے۔ وہاں آج بھی ان کے ”تیرتھ آستانے“ (ھندﺅں کی عبادت گاہیں) موجود ہیں۔ خاص کرکے تیرتھ ”کنبھ“ اور تیرتھ ”قبی“ کسی نہ کسی حالت میں آج بھی موجود ہیں۔ کسی زمانے میں تیرتھ کنبھ پر شِو کا میلہ لگتا تھا۔ اسی چوٹی پر یہ نام بھی سنیاسیوں، جوگیوں اور سامیوں کے گرو ”گورکھ ناتھ“ کے نام پر ہے۔
سندھ اور حکومت پاکستان کی طرف سے گورکھ
ہل پر ایک جدید اور خوبصورت شہر تعمیر کرنے کے منصوبہ پر کام ہو رہا ہے۔ اس نئے
شہر میں جدید ہوٹل، تفریحی مراکز، اسپتال، سرکاری آفیس اور گیسٹ ہاﺅس بنائے جائیں
گے۔ شہر کی تعمیر کے ساتھ ساتھ روڈ بنانے کا کام سیہون ترقیاتی ادارے کو دیا گیا
ہے۔
یہ اسکیم مکمل ہونے کے بعد گورکھ ہل اسٹیشن کو سیر وتفریح میں ایک اہم اور
مرکزی حیثیت حاصل ہوجائے گی۔ یہاں ملکی اور غیر ملکی سیاح زندگی کی مصروفیت سے
آزاد ہوکر کچھ دن سکون کے ساتھ زندگی گذار سکیں گے۔ یہ سیاح شہروں کی آلودگی اور
شور وغل سے دور اور صاف ہوا میں سانس لے سکیں گے۔ ان سیاحوں کے دل گورکھ ہل اسٹیشن
کا پیارا موسم، خوبصورت اور صاف ہوا اور حسین نظارے موہ لیں گے۔
غیر ملکی سیاحوں کی
آمد سے نہ صرف ملک کو غیر ملکی سرمایہ حاصل ہوگا بلکہ مقامی لوگوں کو روزگار بھی میسر
ہوگا۔
Comments
Post a Comment