جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ



 جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ

James Webb Telescope

 

§     ماضی میں کیسے دیکھا جا سکتا ہے؟

§     کیا زمین کے علاوہ بھی کہیں زندگی موجود ہے؟

§     بلیک ہول کیا ہے؟

§     ستارے کیسے بنتے ہیں؟

§     اِس کائنات کا راز کیا ہے؟

§     کیا کبھی یہ معلوم ہو سکے گا کہ ہم کہاں سے آئے اور کہاں جا رہے ہیں؟

جیمز ویب ٹیلی اسکوپ (James Webb Telescope) شاید مستقبل میں اِن سوالات کا جواب تلاش کرسکے۔

حال ہی میں جو تصاویر جیمز ٹیلی اسکوپ نے بھیجی ہیں اُن میں سے ایک تصویر ایسی ہے جو چار کہکشاؤں کے جھرمٹ کی ہے، جو ہم سے تیس کروڑ نوری سال کے فاصلے پر ہیں۔

یہ کہکشاؤں کا واحد گروہ ہے جو اب تک انسان نے دریافت کیا ہے جو یوں آپس میں جڑا ہوا لگتا ہے، دو کہکشائیں ایک دوسرے میں ضم ہوتی نظر آرہی ہیں جبکہ ’وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ‘ یہ چاروں آپس میں ضم ہو جائیں گی۔

اگر اِس واحد تصویر کو بڑا کر کے دیکھا جائے تو پس منظر میں ہمیں لاتعداد چھوٹی بڑی ’روشنیاں‘ نظر آئیں گی، یہ روشنیاں دراصل اُن کہکشاؤں کی ہیں جو اِن چار کہکشاؤں کے علاوہ ہیں اور یوں اِس ایک تصویر میں ہم ہزاروں یا شاید لاکھوں کہکشائیں دیکھ سکتے ہیں ۔

 

جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ (NASA - National Aeronautics & Space Administration)، یورپی خلائی ایجنسی (ESA - European Space Agency) اور کینیڈا کی خلائی ایجنسی (CSA - Canadian Space Agency) کے اشتراک سے بنائی گئی ہے۔

جیمز ویب ٹیلی اسکوپ (James Webb Telescope) کے بننے میں دس ارب ڈالر اور تیس برس لگے اور

اِس میں 29 امریکی ریاستوں کی تین سو جامعات، تنظیموں اور کمپنیوں نے حصہ لیا۔

جبکہ امریکہ کے علاوہ 14 ممالک بھی اِس منصوبے میں شریک تھے۔

اِن 14 ممالک میں ترکی، انڈونیشیا، ملائشیا، قطر ، سعودی عرب، پاکستان اور افغانستان شامل نہیں تھے اور

نہ ہی مستقبل میں ہمارا ایسا کوئی ارادہ ہے۔

 


Digital Sindh
Smart People


Comments

Popular posts from this blog

اسان جو وطن (پيارو پاڪستان)

وطن جي حب

محنت ۾ عظمت