کروڑوں روپے قرضے لے کر گھر بنانا دانشمندی نہیں ۔۔۔۔
کتنے لوگ ہیں جو :
· پیٹ کاٹ کر۔۔۔۔
· تنگدستی میں گزارا کرکے۔۔۔۔
· ایک ایک پیسہ جوڑ کر۔۔۔
· لون اور قرضوں کے بے انتہا بوجھ تلے دب کر ۔۔۔
اپنا ذاتی گھر بنا پاتے ہیں۔
لیکن اس کے باوجود:
وہ ماہانہ اخراجات کے حوالے سے مشکلات کا شکار رہتے ہیں کیونکہ ظاہر ہے، گھر آپ کو کما کر نہیں دے سکتا۔
یاد رکھیے:
· گھر سے پہلے، اپنی آمدنی بڑھانے کی فکر کیجیے۔ ۔۔۔
· آمدنی کے ذرائع داؤ پر لگا کر۔۔۔۔
· کڑوڑوں روپے قرضے لے کر گھر بنانا دانشمندی نہیں۔
پیسہ، پیسے کو کھینچتا ہے۔ مغرب میں گھر بنانے کو اب بیوقوفی سمجھا جاتا ہے۔ وہ کڑوڑوں روپے گھر میں پھنسا کر رکھنے کے مخالف ہیں۔
گھر اس پیسے سے بناتے ہیں جو "زیادہ (Extra)" ہو اور ماہانہ آمدنی کا اچھا حساب کتاب چل رہا ہو۔
اس سوچ سے باہر آئیے کہ:
اس سے کہیں زیادہ اہم ہے کہ:
"اچھی (ماہانہ/سالانہ) آمدنی ہونی چاہیے"
کیونکہ:
آپ اور آپ کے خاندان کو آمدنی نے پالنا ہے، گھر نے نہیں ۔۔۔
اپنا گھر ضرور بنائیے لیکن ۔۔۔۔
اس چکر میں خود کو بلاوجہ مصیبت یا حد سے زیادہ پریشر میں ڈال دینا دانشمندی نہیں۔۔۔!!!
پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کی معاشی تنگدستی کی وجہ:
"اپنا گھر ہونا چاہیے" والی سوچ ہے۔
خاص کر وہ لوگ جو کڑوڑوں روپے کے ذاتی گھروں میں رہ رہے ہیں پر ماہانہ آمدنی کے حوالے سے مشکلات کا شکار ہیں۔
چونکہ اس ملک میں فنانشل لٹریسی بہت ہی کم ہے، اس لیے یہاں اپنے گھر کو عام طور پر asset سمجھا جاتا ہے، جبکہ حقیقتاً یہ ایک liability ہے۔
یاد رکھئیے:
· asset اس چیز کو کہا جاتا ہے جو آپ کو اپنی مارکیٹ ویلیو کے حساب سے کما کر دینے کی اہلیت رکھتی ہو۔
· دو کڑوڑ کا گھر بنا کر، ایک پورشن ماہانہ تیس چالیس ہزار کرایہ کمانا کسی طور optimal مارکیٹ ویلیو نہیں۔
· جس گھر میں آپ رہتے ہیں، وہ asset نہیں۔
· اس گھر نے آپ کے کروڑوں روپے انگیج کر رکھے ہیں۔
(بشکریہ واٹس اپ گروپ)
Comments
Post a Comment